نیویارک (پاکستان نیوز) صدر ٹرمپ کے لیے 2020کا الیکشن جیتنا کسی چیلنج سے کم نہیں رہا ، کورونا وائرس ، سیاہ فام افراد کا احتجاج بڑی رکاوٹوں کی طرح ٹرمپ کی کامیابی کی راہ میںحائل ہیں اور اس کے ساتھ ایک تیسری قوت بھی تیزی سے سامنے آ رہی ہے جوکہ ٹرمپ کی اپنی جماعت ری پبلیکن سے تعلق رکھتی ہے جی ہاں وہ ری پبلیکنز جو چاہتے ہیں کہ ٹرمپ کسی صورت دوسری مرتبہ امریکہ کے صدر نہ بنیں اور یہ تیسری قوت ڈیموکریٹ کے ساتھ مل کر کروڑوں ملین ڈالر کی امداد سے جوبائیڈن کو صدر منتخب کرانے کے لیے پر تول رہی ہے اور ساری صورتحال میں سابق سیکیورٹی ایڈوائزر جان بولٹن کی کتاب سونے پر سہاگہ ثابت ہوئی ہے جس میں انھوں نے انکشاف کیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے گزشتہ برس ہونےوالے جی 20اجلاس کے دوران چینی صدر مسٹر شی سے 2020کے انتخابات میں کامیابی کے لیے مدد کی بھیک مانگی تھی ، تفصیلات کے مطابق یہ کہنا کسی صورت بھی غلط نہیں ہوگا کہ جب سے ڈونلڈ ٹرمپ نے سیاست شروع کی ہے وہ ری پبلیکن جماعت میں ہمیشہ پسندیدہ شخصیت کے طور پر اوپر آئے ہیں اور ان کو کافی سراہا جاتا رہا ہے اور یہی وجہ تھی کہ ری پبلیکن جماعت نے ان کو 2016کے انتخابات میں صداراتی امیدوار کے طور پر نامزد کیا اور وہ کامیاب رہے لیکن اپنے دور حکومت کے دوران صدر ٹرمپ اپنے تمام مداحوں کی کہی گئی پالیسیوں پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں ، کورونا وائرس کی روک تھام کے خلاف اقدامات میں ٹرمپ حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے تنقید کا سلسلہ نہ صرف ڈیموکریٹ جماعت کی جانب سے جاری رہا بلکہ ٹرمپ کی جماعت کے اہم رہنماﺅں نے بھی اس سلسلے میں ٹرمپ کی پالیسیوں کی کھلی مخالفت کی ہے اور اب ان کی اپنی جماعت میں سے ہی ایک گروپ نے سر اٹھانا شروع کیا ہے جوکہ آئندہ انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر دیکھنا نہیں چاہتا ہے اور اس گروپ نے ڈیموکریٹس کے ساتھ مل کر جوبائیڈن کو کامیاب کرانے کے لیے کروڑوں ڈالر امداد دینے کا بھی اعلان کیا ہے ، اس سب کے بعد سابق سیکیورٹی ایڈوائزر جان بولٹن کی کتاب نے ٹرمپ کی فتح کی راہ میں نئی رکاوٹ کھڑی کر دی ہے ، اپنی کتاب میں بولٹن نے بتایا کہ 2019میں جی 20 ممالک اجلاس کے دوران صدر ٹرمپ نے چینی ہم منصب سے سویابین کی خریداری کے حوالے سے بات چیت شروع کی تاکہ امریکی کسان اس سے فائدہ حاصل کر سکیں اور انہیں الیکشن میں کامیابی کے لیے سپورٹ مل سکے ، اس پر چینی صدر نے امریکہ میں چینی ناقدین کے متعلق بات شروع کی تو ڈونلڈ ٹرمپ نے اس کا مطلب اپنے ناقدین کے حوالے سے ڈیموکریٹس کی صورت میں لیا اور ہاں میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ بالکل ڈیموکریٹس بہت تنقیدی ہیں، اس کے بعد صدر ٹرمپ نے اپنے کسانوں کے حوالے سے چین سے سویابین کی خریداری بڑھانے کی بات چیت شروع کی تاکہ وہ آئندہ الیکشن میں کامیابی حاصل کر سکیں، اس موقع پر بولٹن نے لکھا کہ کاش میں ٹرمپ کے الفاظ کو اسی طرح لکھ سکتا جس طرح ٹرمپ نے بولے تھے لیکن سرکاری پریس کی وجہ سے مجھے یہ اجازت نہیں ملی ، بولٹن نے کتاب میں لکھا کہ اس کے بعد چینی صدر نے ٹرمپ سے ایغور مسلمانوں کے لیے الگ کیمپس کی تعمیر کی بات چیت شروع کی تو ٹرمپ نے بغیر سوچے سمجھے چینی صدر کو GO A Head دے دیا ، بولٹن نے لکھا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے الیکشن میں مدد کی بھیک مانگنے پر چینی افسران بہت خوش تھے کہ وہ سویا بین کی خریداری کے بدلے اپنے مفادات کی تکمیل کو یقینی بنائیں گے ، اسی طرح بولٹن نے اپنی کتاب میں لکھا کہ 2018 میں ترکش صدر طیب اردوان نے ملکی کمپنی کیخلاف قانونی کارروائی میں نرمی کا مطالبہ کیا تو ٹرمپ نے کہا کہ وہاں ابھی اوباما کے لوگ ہیں جب ان کی جگہ میرے لوگ لیں گے تو ضرور اس پر عمل کریں گے ، اسی طرح امریکی ڈرون مار گرائے جانے پر ٹرمپ نے اچانک ایران کیخلاف سٹرائیک کا حکم دیا اور پھر واپس لے لیا ، اس پر مائیک پومپیو سمیت اعلیٰ حکام نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا کہ ایسا پہلے کسی صدر کی جانب سے نہیں کیا گیا ۔ٹرمپ نے زیادہ تر فیصلے بغیر سوچے سمجھے جذباتی طور پر کیے ۔بولٹن نے اپنی کتاب میں اسٹیٹ سیکرٹری مائیک مومپیو اور سابق چیف آف سٹاف میک ملوانی کے حوالے سے سنگین الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ وہ دونوں لیکرز ہیں۔ افغان امن معاہدے کا حوالے دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب معاہدہ آخری مرحلے میں داخل ہو چکا تھا اور کیمپ ڈیوڈ میں افغان نمائندوں کے ساتھ حتمی میٹنگ طے ہو چکی تھی تو ٹرمپ نے مجھے اپنے دفتر بلا کر شکایت کی کہ افغان نمائندوں نے ہماری جانب سے معلومات لیک ہونے کی وجہ سے میٹنگ کینسل کر دی ہے جس پر ٹرمپ معلومات کی لیک ہونے کی ذمہ داری مجھ پر ڈالنے کی کوشش کی جس کے جواب میں ٹرمپ کو واضح کیا کہ یہ معلومات یقینی طور پر مائیک پومپیو اور میک ملوانی نے لیک کی ہیں تاکہ آپ کو ناکام کیا جا سکے۔