عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
قائد ملت اسلامیہ۔بانیء عزت پاکستان
بانیء نیوکلئیر ٹیکنالوجی۔بانیء وقار پاکستان
فرزند ملت اسلامیہ۔۔۔فرزند پاکستان
ہمارافخر۔محسن پاکستان۔عظمت پاکستان۔
سر اُٹھا کر جینے کا سلیقہ سکھانے والا
ہمارا محسن۔ڈاکٹر عبد القدیر خان۔ قائداعظم ثانی۔اللہ مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے۔ جنت میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔آمین۔
گزر ہی گئی ہے قدیر حیات تیری
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
اک ہیرو۔عظیم ہیرو۔قابل احترام ہیرو۔حقیقی ہیروجس نے ایک کمزور قوم کو دنیا کی صف اول کی جوہری طاقت بنا دیا۔آخری وقت تک اپنے ہی گھر میں قیدی رہے۔ آج اللہ کے خضور پیش ہوگئے۔ ڈاکٹر صاحب آپ سے مجرمانہ سلوک پرہم شرمندہ ہیں لیکن آپکو بے توقیر کرنے والے ڈکٹیٹر مشرف ذلیل و رسوا ہوگئے۔ آج پاکستانی قوم سوگوار ہے۔
خاک میں ڈھونڈتے ہیں سونا لوگ
ہم نے سونا سْپرد خاک کیا،محسن پاکستان
جس کی نماز جنازہ میں نہ صدر پاکستان،نہ وزیراعظم پاکستان اور نہ ہی مسلح افواج کے سربراہان شریک ہوئے۔آخر کب تک بین الاقوامی دنیا سے ڈر ڈر کر جیتے رہیںگے؟وفا شعاری ، بہادری کا درس دینے والے سیاستدان، جرنیل کب تک غیروں سے ڈر کر آئین پاکستان، محسنان پاکستان سے غداری کرتے رہیں گے اورہم انہیں آنکھ کا تارا ، دلوں کی دھڑکن اور سر کا تاج قرار دیتے رہیں گے ، قو م ان منافقوں کواپنا ہیرو خود منتخب کرتی رہے گی۔فخر پاکستان کی محبت میں پورا پنڈی اور اسلام آباد انتہائی تیز بارش کے باوجود ڈاکٹر قدیر خان کے جنازہ میں اُمڈ آیا۔
بارش نہیں تھی آج آسماں رو رہا تھا
اک ہیرا جو زمیں میں دفن ہو رہا تھا
وزیراعظم ، صدر ،آرمی چیف اورآرمی کے بے شرم جرنیلوں۔ بے شرم وزیروں اور بے غیرت اشرافیہ کی غیرت جاگی۔بیماری کے دوران ہاسپیٹل میں کسی سیاسی لیڈر ، آرمی چیف ، صدر ، وزیراعظم کو عیادت کی توفیق نہ ہوئی نہ ہی انہوں نے شرم کھائی کہ انہیں ہاسپیٹل میں پھولوں کا گلدستہ ہی کوئی بھیج دیتا۔
آج ہمارا ملک ہماری بہو بیٹاں ،ہماری سرحدیں صرف جوہری صلاحیت کیوجہ سے مخفوظ ہیں۔ پاکستان کی سلامتی جوہری صلاحیت کی وجہ سے ہے۔یہ جرنیل ، کرنیل اور ہماری افواج کی شان و شوکت ڈاکٹر قدیر خان کی مرہون منت ہے۔بھارت کی بدمعاشی ، امریکہ کی غنڈہ گردی اور اسرائیل کی جارحیت سے بچاؤ ،صرف اور صرف ایٹمی ٹیکنالوجی کا حصول ہے۔
یہ جو لبرل ننگی ذہنیت کی عورتیں اور مرزا جیسے فاشسٹ لبرنٹے بیغرتی کا بیج بونے کی کوشش کرتے ہیں ، اس بیرونی بیغیرتی کے آگے ہماری یہی صلاحیت دیوارہے لیکن ہم وہ منافق قوم ہیں جو چوروں،ڈاکوؤں اور لْٹیروں کے لئے سڑکوں پر نکلتے ہیں مگر قوم کے محسن کے لئے کبھی سڑک پر نہیں نکلے۔
ہم وہ بے شرم قوم ہیں اپنے محسنوں کی قید و بند میں بے حس رہتے ہیں اور انتقال کرنے پر تصویریں ڈھونڈ ڈھونڈ کر پوسٹ کرتے ہیں۔ایٹم بم کا خالق قوم کی بے حسی کے ہاتھوں شہید ہوا۔
انڈیا میں ایٹمی سائنسدان کو ملک کا صدر بنایا گیا۔محسن پاکستان سے ٹی وی پر لائیو معافی منگوائی گئی،غداری کی سرٹیفکیٹ دی گئی، نظر بند کیا گیا ، طرح طرح کے طعنے دئیے گئے، شیخ رشید جیسے کم ظرف انسان نے ڈاکٹر عبدالقدیر کو بھرے مجمعے میں بے عزت کیا کہ آپ پیچھے بیٹھ جائیں یہ کرسیاں منسٹرز کیلئے رکھی گئی ہے۔
ہزاروں گلے شکوے دل میں لئے آج وہ عظیم انسان ہم سے ہمیشہ کیلئے جدا ہو گیا۔
ڈاکٹر صاحب ہمیں معاف کر دینا ہم مردہ پرست ، مزاروں، درباروں اور مْردوں کی پرستش کرنے والی قوم ہیں زندہ لوگوں کو بھول جاتے ہیں مگر مرنے کے بعد قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر قدیر خان رحمت اللہ علیہ ھم
آپ کا احسان کبھی نہیں بھولیں گے ہم بحیثیت قوم آپ کے مقروض ہے۔
فواد چوہدری، شیخ رشید اور کئی دوسرے وزرائ مشرف کی کیبنٹ میں تھے۔ آج کی کیبنٹ میں کئی وزرائ ڈاکٹر قدیر کی تضہیک کرنے والوں میں شامل تھے۔
عقل حیران ھے کہ قوم کا طرح ان بیغرتوں کو منتخب کرتی ھے۔ کل جو لوگ آپکے لئے غدار کا درجہ رکھتے تھے۔ آج وہی لوگ پی ٹی آئی میں آکر دْھل گئے ھیں۔ قوم کے اندر سے منافقت کا عنصر جب تک نہیں جائے گا ایسے گرانقدر ہیرے رسوا ھوتے رھیں گے۔ ھم بھی کیاعجیب لوگ ھیں ، قبروں پر رو لیتے ھیں۔ زندہ لوگوں سے محبت کا مزاج نہیں رکھتے۔جس شخص کو ہم لوگ محسن پاکستان کہ رہے
اس شخص پر جب برا وقت تھا، ہم اس وقت 1 منٹ کے لیئے بھی باہر نہ نکلے آج اسکی وفات پر سب منافقین جھوٹے آنسو بہا رہے۔آہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہم شرمندہ ہیں تاریخ گواہ ھے ہم اپنے محسنوں کا یہی انجام کرتے ہیں۔ حکومتی حلقوں نے قادیانیوں اور امریکہ کی خوشنودی کے لئے جنازہ میں شرکت نہیں کی۔وزیراعظم، صدر، آرمی چیف کسی کو جنازہ کو کندھا دینے کی توفیق نہ ھوئی۔
سی آئی اے نے ڈاکٹر عبدالقدیر کو دنیا کا خطرناک ترین انسان قرار دیا تھا۔ کیا ناگا ہیروشیما، ناگاساکی پر ایٹم مارنے والوں سے کسی خیر کی توقع ھوسکتی ھے۔
عراق،لبیا،مصر، یمن،افغانستان اور شام میں تباہی مچانے والوں پر آپ بھروسہ کرسکتے ھیں۔ یہ سبھی ممالک امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے اچھے دوست تھے۔ جن کو تباہ کیا۔کئی لاکھ مسلمانوں کو لقمہ اجل بنادیا گیا۔ اسلئے جوہری صلاحیت پاکستان کے لئے انتہائی ضروری اور ناگزیر تھی۔
ڈاکٹر قدیر کا کہنا تھا کہ اگر انڈیا نے کوئی شرارت کی تو اسے روئی کے گالوں کیطرح اْڑا کر رکھ دینگے۔
وہ آنکھ پھوڑ دینگے جو میلی نظر سے پاکستان کیطرف اْٹھے گی۔
دشمن کو ھماری طاقت کا اندازہ نہیں
پاکستان کی ستر سالہ تاریخ ایک طرف اور ڈاکٹر قدیر کا پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کا کارنامہ ایک طرف۔ ایک اسرائیلی اخبار نے دعوی کیا ھے کہ ڈاکٹر قدیر کو تین بار قتل کی کوشش کی گئی۔
پاکستان کا ایٹم بم ایکوریسی میں دنیا کے چند ممالک میں سے ایک ھے۔جدید ترین اور انتہائی تباہ کن ھے۔جس کیوجہ سے اسے رول بیک کرنے کی دھمکیاں ملتی رہیں۔الحمدللّٰہ مزائیل ٹیکنالوجی میں ہم دنیا کے پہلے چھ ممالک کی صف میں کھڑے ہیں۔صرف جرآت مند لیڈر شپ کی کمی رہی ہے۔
نیک روح چلا گیا ہم ہیں کہ مگرمچھ کے آنسو بہا رہے ہیں۔
مردہ پرست قوم نے روایت برقرار رکھی اور مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہوئے اُمت مسلمہ کے حقیقی ہیرو کو سپرد خاک کردیا. ستر برس کے اس ملک پر حقیقی معنوں میں دو ہی غم کے مواقع آئے، ایک وہ دن جب قائد اعظم محمد علی جناح رح کی رحلت ہوئی اور دوسرا آج کا دن جب ایک کمزور اور زمین سے لگی قوم کو ایٹم بم کے تحفہ کے ذریعہ پیروں پر کھڑا کرنے والا ہمارا محسن ہمارے درمیان سے اٹھا ہے۔
حیرت مگر یہ ہے کہ ستر برس سے زائد عرصہ سے جاری ڈرامہ کے سکرپٹ میں ہم آج بھی رتی برابر تبدیلی نہیں لاسکے، یہ ہماری نالائقی نہیں تو اور کیا ہے۔
ہمیشہ کی طرح کی رٹی رٹی پست درجہ کی بیان بازیاں، دکھاوے کا نوحہ اور منافقت بھرے سجدوں کے ساتھ غائبانہ نماز جنازہ کی مشق۔دنیا کے سٹیج پر ہم عجیب و غریب قسم کے مسخرے ہیں، سونے سے بنے لوگوں کو جیتے جاگتے مٹی کا ڈھیر بنا ڈالتے ہیں اور وہ دنیا سے گذر جائیں تو سامری کی طرح سونے کا بچھڑہ بنا کر ان کی پوجا کیا کرتے اور منافقت بھری پھونکوں سے ان میں جان ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ڈاکٹر قدیر کی قبر پر کئی من پھولوں سے پاشی کی جارہی ھے۔ میرا ان سے سوال ھے کہ جب ڈاکٹر قدیر قید کی زندگی گزار رھے تھے۔ تو یہ لوگ کہاں تھے
دل آج بہت اُداس ہے کہ واقعی غم کا یہ بڑا دن ہے مگر ڈرامہ کے سکرپٹ رائٹروں اور ہدایت کاروں کی مضحکہ خیز حرکتیں دیکھ کر ہنسی رکنے میں نہیں آرہی۔ وہی گھسے پٹے جملے اور مگر مچھ کے آنسو۔ مزیدار بات یہ ہے کہ سکرپٹ کے ہر صفحہ کا عنوان ایک ہی ہے ، منافقت جھوٹ اور ریاکاری۔
ھدایت کاروں کو اتنا تو کرنا ہی چاہئے کہ نیا سکرپٹ ترتیب نہیں دے سکتے تو کم از کم عنوانات ہی بدل ڈالیں۔
عظیم انسان اور اپنے محسن کے جانے پر دکھ بہت ہے مگر اطمینان ہے کہ ایک نیک روح مردہ ضمیروں کے قبرستان سے پرواز کرکے نجات پاگئی۔
زندگی بھر جسے پابندسلاسل کیا —ـ
بعد از مرگ توپوں کی سلامی دینگے
میرے محسن تیرا قرض ادا کر نہ سکے
قیامت تک تجھے دعاؤں کی سلامی دینگے.
٭٭٭