قارئین وطن! مارچ کے ساتھ اس غریب کی بڑی وابستگی ہے اس عظیم دن کو سال ہوتے ہیں جس دن قرار داد پاکستان پیش ہو رہی تھی، میرے والد سردار محمد ظفراللہ ایڈوکیٹ جو پاکستان مسلم لیگ لاہور کے پراپیگنڈا سیکرٹری تھے جس کو آج کل انفارمیشن سیکرٹری کہتے ہیں اس سٹیج پر موجود تھے، میرے لئے بڑی فخر کی بات ہے ہر چند کے میں استخوان فروشی کا قائل نہیں ہوں لیکن ریکاڑ کی درستگی کے لئے حوالہ دینا ضروری ہو جاتا ہے ۔میری زندگی میں مارچ کی بڑی اہمیت ہے کہ سال بعد میرا جنم ایک آزاد ملک جس کو پاکستان کہتے ہیں میں ہوا اور اس مٹی پر ہوا جس کو لاہور کہتے ہیں میرے لئے اس سے بڑ ھ کر اعزاز کیا ہو گا کہ مارچ کو اسی منٹو پارک جو اب یاد گارِ پاکستان کہلاتا ہے کی گولڈن جوبلی منائی گئی، میں بھی اس سٹیج پر پاکستان مسلم لیگ یو ایس اے کے صدر کے بطور مہمان حاضر تھا ۔ مارچ کے حوالے سے ہماری حکومتیں خاکی وردی میں ہوں یا سفید لباس میں ملبوس ہوں توپوں کی گھن گرج میں اور بینڈ باجوں کے شور میں بڑے دھوم دھڑ کے سے مناتی ہے ۔ خاص طور پر دو ایونٹ بڑے چمکدار ہوتے ہیں ایک بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح اور دوسرا میرے مرشد حضرت علامہ اقبال کے مزارات پر گارڈ آف آنر کی تبدیلی بلکہ ایسا لگتا ہے کہ گارڈ آف آنر کم اور سنگینوں کے سائے میں کڑا پہرا لگایا جا رہا ہے کہ کہیں دونوں صاحبان آٹھ کھڑے نہ ہو جائیں اورپاکستان کو برباد کرنے والوں کے گلے دبوچ نہ لیں کہ ہمارے پاکستان کا کیا حال کر دیا ہے پہلے ملک دو لخت کیا اور اب کنگال کر دیا ہے ۔ قارئین وطن ! سال بعد آج مارچ پر میرے لئے بڑا بوجل دل تھا میں اس سوچ میں غرق تھا میں کہ سردار نصراللہ آج کے دن خوش ہوں تالیاں بجاں ہنسوں یا روں کہ آج مارچ صدر پاکستان آصف علی زرداری وزیر اعظم میاں شہباز شریف اور تمام کابینہ غیر منتخب شکست خوردہ فارم کی جبری پیدا کردہ حکمرانی کر رہی ہے اور عالم ارواح میں بیٹھے قائید اعظم اور شاعر مشرق علامہ کا منہ چڑھا رہے ہیں کہ دیکھ پہلے تیرا پاکستان آدھا کھایا ہے اب پورا کھائیں گے اور اس وقت بھی تیری خاکی ہمارے ساتھ تھی اور آج بھی ہمارے ساتھ ہے ایسی صورت میں کہاں کی لیڈر شپ اور کہاں آج کی لیڈر شپ اوپر سے نیچے تک ناہل چور لٹیرے خائین بدمعاش قاتل بونے ہی بونے اجلے چمکتے لباسوں میں رہبر بنے بیٹھے ہیں ہائے اللہ کس جرم کی سزا تو دے رہا ہے تو نے شعور کی اک کرن عمران دکھائی تو ہم سمجھے اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں ، اک ذرا صبر ، کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں لیکن نہیں ابھی نہیں بس ایک اور مارچ پر فوجی پریڈ دیکھ کر خوش ہو جا اور خونِ غریباں پینے والوں کے بوٹوں تلے سر دے کر مر جا۔ قارئین وطن! میں حیران ہوں ان کروڑ ووٹروں پر جنہوں نے عمران خان کے شعور آزادی پر لبیک کہتے ہوئے فوج کے بچھائے ہوئے انگاروں پر چل کر اس کے انتخابی نشان بلے کے بغیر ووٹ ڈال کر سازشوں کی بساط الٹ کر رکھ دی لیکن ابھی تک شعور دینے والے کو جرنل عاصم منیر کی قید سے رہا نہیں کروا سکے میرے ایک سجن کہتے ہیں کہ عاصم منیر نے نہیں یہ قاضی نے اس کو جیل میں رکھا ہوا ہے ؟ یاران سیاست پاکستان کی سالہ تاریخ پر نظر ڈالیں جرنل ایوب خان سے شروع ہو جائیں یہ ہماری خاکی وردی اور لوہے نما بوٹوں والوں کے کارنامے ہیں اور آج بھی یہ جرنل عاصم منیر ہی کا کارنامہ ہے ورنہ ان نوازی بونوں کی کیا مجال اب وقت آگیا ہے کہ کروڑ ووٹر اپنے حق کے لئے زندانوں کی طرف بڑھیں اور عمران خان اور اس کے جان نثار ساتھیوں کی آزادی کے لئے زنجیریں کاٹنا شروع کر دیں ۔ ایک بیچارہ بونوں کا بونا رانا ثنا اللہ یہ کہتا پھر رہا ہے کہ عمران کا وجود ہماری سیاست کہ لئے بہت بڑا خطرہ ہے دوسرے لفظوں میں کہ اس کو صفہ ہستی سے مٹانا بڑا لازم ہو گیا ہے افسوس کہ نیوکلر پاکستان کی لاکھ فوج کا سپہ سلار اس مفلوج سوچ کی سرپرستی فرما رہا ہے ۔ کاش والی لیڈر شپ زندہ ہو جائے جو اس بچے کچے پاکستان کو بچا لیں اور ہمیں چوروں لٹیروں اور خائین حکمرانوں کے سایہ میں مارچ نہ منانا پڑے۔
٭٭٭