فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! اُم المئومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کا وصال باکمال اٹھارہ رمضان المبارک کو ہوا تھا بعض نے کہا ہے جب کہ مدارج النبوت نے واقدی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ سترہ رمضان المبارک٥٨ سن بروز منگل کو ہوا۔ یہ زیادہ مشہور ہے۔ اس وقت آپ رضی اللہ عنھا کی عمر مبارکہ چھیاسٹھ سال تھی۔ آپ نے وصیت فرمائی تھی کہ مجھے رات کے وقت بقیع شریف میں دفن کیاجائے۔ ایسے ہی کیا گیا آپ کی نماز جنازہ حضرت ابوہریز رضی اللہ عنہ نے پڑھائی۔ آپ رضی اللہ عنھا حضرت امیر المئومنین ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ہیں۔ آپ کی کیفیت ام عبداللہ ہے۔ یہ آپ کے بھانجے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے۔ ان کی ماں کا نام اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنھا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے حضورۖ سے درخواست کی تھی کہ آپ میری کیفیت مقرر فرما دیں تو حضورۖ نے فرمایا کہ اپنی بہن کے صاحبزادے سے اپنی کیفیت رکھ لو یعنی اسماء کے بیٹے عبداللہ بن زبیر سے ایک روایت میں یوں آیا ہے کہ عبداللہ بن زبیر پیدا ہوئے تو آپۖ نے اپنالعاب دہن مبارک ان کے منہ میں ڈالا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے فرمایا کہ یہ عبداللہ ہیں اور تم اُمّ عبداللہ ہو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا کی بہن اسماء ہیں اور والدہ رومان بنت عامر قبیلہ بنی کفانہ سے ہیں۔ اسکے بعد حضور اکرمۖ نے اپنا پیام نکاح دیا۔ اور یہ سب اللہ کے خاص حکم سے ہوا تو حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا اُمّ المئومنین ہونے کا شرف پاگئیں۔سیدہ رضی اللہ عنھا شوال میں نکاح کرنے کو پسند فرماتی تھیں جبکہ جاہلیت میں اسے ناپسند کیا جاتا تھا آپ کا نکاح اور زفاف شوال المکرم میں ہی ہوا۔ بعض سفروں میں نبی اکرمۖ آپ کو یاد فرماتے اور کہتے”وا عرو ساہ” حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی حضورۖ سے مدت صحبت ومعاشرت نوسال ہے۔ حضور اکرم ۖ نے ان کے علاوہ کسی باکرہ سے نکاح نہیں فرمایا۔ صحیح یہی ہے کہ آپ سے کوئی اولاد پیدا نہیں ہوئی آپ کے فضائل ومناقب بے شمار ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا برفقہاء وعلماء فصحاء وبلغاء صحابہ میں سے تھیں۔ بعض سلف سے منقول ہے کہ احکام شرعیہ کا رفع یعنی فیصلہ کرنے کے لئے ان کی طرف رجوع کیا جاتا تھا۔ حدیث پاک میں بھی ہے کہ آپۖ نے فرمایا کہ تم اپنے دو تہائی دین کو ان حمیرا یعنی عائشہ صدیقہ سے حاصل کرو۔ صحابہ وتابعین کی جماعت کشیرہ نے ان سے روایتیں لی ہیں۔ عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ میں نے کسی کو معافی قرآن، حکام حلال وحرام، اشعار عرب اور علم انصاب میں حضرت عاشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے زیادہ عالم نہیں دیکھا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کے مذکورہ ”اشعار حضور نبی کریمۖ کی مدح میں ہیں۔ترجمعہ: اگر مصر والے نبی پاکۖ کے رخسار مبارک کے تذکرے سن لیتے تو یوسف علیہ السلام کو نہ خریدتے۔ اگر ماں زلیخا نبی کریمۖ کو دیکھ لیتیں تو اپنے ہاتھوں سے اپنا دل کاٹ لیتیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی یہ بڑی فضلیت ہے کہ آپ نبی پاکۖ کی محبوبہ ہوئی تھیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اسلام میں سب سے پہلی محبت جو پیدا ہوئی وہ حضرت محمد مصطفیٰۖ کی ہے جو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے ہے۔
رسول اللہۖ سے صحابہ کرام علیھم الرضوان نے پوچھا کہ آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ فرمایا عائشہ، پھر پوچھا مردوں میں سے؟ فرمایا ان کے والد پھر حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے پوچھا گیا کہ رسول اللہۖ کو لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب کون تھا؟ فرمایا: فاطمہ زہرا، یعنی اللہ عنھا پھر لوگوں نے پوچھا مردوں میں سے؟ فرمایا: ان کے شوہر اللہ بہتر جانتا ہے باقی ان میں تطبیق یوں لگتی ہے کہ ازواج میں محبوب تر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا ہیں۔ اور اولاد میں محبوب ترسیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا ہیں۔ اور اہل بیت میں سے محبوب تر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اصحاب میں سے محبوب تر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ باقی زیادہ محبت کے وجوہ وحیثیات مختلف ہیں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی ایک یہ بھی فضلیت ہے کہ اور کسی زوجہ مطھرہ کے جامہ خواب میں حضورۖ پر وحی نہیں آئی جبکہ سیدہ رضی اللہ عنھا کے جامہ خواب میں کئی مرتبہ وحی کا نزول ہوا۔ عاجزی آپ میں اسقدر تھی کہ وفات کاوقت آیا تو آپ کہتی تھیں کاش میں درخت ہوتی کہ مجھے کاٹ ڈالتے، کاش کہ کلوخ ہوتی، کاش میں ایسی ہوتی، کہ مجھے کوئی یاد نہ کرتا، کاش کہ میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی۔ سبحان اللہ! دنیا سے کیسی بیزاری وشکستگی اور تواضع وانکساری ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں آپ کے فیضان سے وافر حصہ عطا فرمائے۔
٭٭٭٭٭