حضور پاک کا فرمان تھا کہ منافق کافر سے بھی بدتر ہوتا ہے کیونکہ کافر تو نہ ماننے کا اقدار کرتا ہے سب کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ کافر ہے منافق تو مومن ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن دراصل وہ نہ ماننے والا ہوتا ہے۔ اسلئے زندگی میں جب منافق ملتا ہے تو سمجھدار لوگ اس سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں۔ عام زندگی میں بھی قول وفعل کا تضاد دھوکے باز کی نشانی ہے لیکن اگر کوئی انسان کہتا ہے کہ میں اس لئے کامیاب ہوں کہ اپنی بات پر قائم نہیں رہتا تو سمجھیں کہ ایسے انسان سے تعلق آپکو تکالیف میں ڈال سکتا ہے، اسے منافق اور دوغلے انسان سے مراسم نہیں پڑھائیں لیکن بدقسمتی سے اب ہماری سیاست میں بھی ایسی شخصیات داخل ہوگئی ہیں کہ وہ کہتے ہیں کچھ اور کرتے ہیں کچھ، پھر دوسری قسم ان لوگوں کی پیدا ہوگئی ہے جو بڑے بڑے دعویٰ کرتے ہیں اور اُلٹ کر کہتے ہیں کہ یہی اچھی قیادت کی خصوصیت ہے کہ وہ یوٹرن لے انہیں کوئی شرمندگی نہیں ہوتی کہ انہوں نے جو بتایا عوام کو اس کا اُلٹ کیا بلکہ فخریہ طور پر کہتے ہیں کہ یہی تو میری کامیابی کا راز ہے۔ عام طور پر میری ایک عادت ہے کہ میں گرے ہوئے گھوڑے کو ٹھوکریں نہیں مارتا جیسے کہ انگریزی میں کہتے ہیں یا اردو میں کہتے ہیں ”مرے ہوئے کو مارے شاہ موار” لیکن ایسے متکبر انسان جو اپنی غلطیوں کو خصوصیات سے تشبیہ دے اور دوسروں کی تذلیل کرکے انہیں عجیب لقابات سے نوازے اور اپنی ذات کو افضل جانے ایسے انسان کو اللہ کی ذات بھی پسند نہیں کرتی تو مجھ جیسا حقیر انسان کیسے پسند کرسکتا ہے۔ لیکن بھی پاکستان میں ہزاروں لاکھوں لوگ ایسے بھی جنہیں عمران خان سے لگائو ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پرانی قیادت نے لوگوں کومایوس کیا ہے مسائل کو حل نہیں کیا ہے۔ اس بات میں بڑی حد تک حقیقت ہے لیکن اگر ایک حد تک دیکھا جائے کہ عمران نے بھی اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں عوام کو کیا دیا سوائے مایوسی کے۔ کیا بدعنوانی کو ختم کرنے میں کامیاب ہوا تو جواب نفی میں آتا ہے یہیں بلکہ تحریک انصاف کی حکومت میں بدعنوانی میں اضافہ ہوا اور بین الاقوامی مالی مانیٹرنگ کرنے والے اداروں نے اپنی آزادانہ تجزیہ میں بتایا کہ بدعنوانی اور بڑھتی چلے گئی پنجاب میں بزدار کی وزارت اعلیٰ تحت بڑی بڑی پوسٹنگ پر مانیکا خاندان نے جو لوٹ مار کا بازار گرم کیا اور خان صاحب کو تمام رپورٹس دیکھیں لیکن الٹا وہ خفا ہوگئے ہے رپورٹیں تصدیق کرکے پہنچانے والوں تک عمران خان اچھی طرح سے جانتے تھے کہ جہانگیر ترین اور خسروبختیار نے عوام کیلئے آٹا اور چینی خریدنا مشکل کردیا لیکن انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ اب وہ کہتے ہیں کہ جنرل باجوہ نے انہیں حکومت کھل کے نہیں کرنے دی۔ جبکہ دوران حکومت وہ جنرل باجوہ کو اپنا پارٹنر اور دوست مانتے تھے جنرل باجوہ نے انہیں مشورہ دیا کہ بزدار کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا دیں لیکن انہوں نے انکار کردیا کیونکہ گھر والے نہیں چاہتے تھے کہ بزدار کو تبدیل کریں، فرح گوگی اور مانیکا خاندان کو جو مراعات بزدار نے دے رکھیں تھیں وہ کوئی اور نہیں دے سکتا تھا کیا عمران خان نے جب جہانگیر ترین کو فارغ کیا تو کیا باجوہ نے انہیں منع کیا اگر اس موقعہ پر انہوں نے اپنی مرضی سے فیصلہ کیا جو شخص ایسی مملکت کا سربراہ ہو جو بشمار مسائل میں گھرئی ہوئی ہو۔ اور وہ موصوف آدھا دن گھر پر گزار کر بارہ بجے اپنے دفتر میں تشریف لاتے ہوں تو وہ حکومت کیا کریگی سربراہ مملکت کیلئے فقط خوبصورت اور پرکشش ہونا ضروری نہیں محنتی اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانا نہایت ضروری ہے۔ آپ آکسفورڈ کے نظام حکومت کو گھرائی سے دیکھا تھا آپ کے پاس بہترین ٹیم تھی(بقول خود کے) تو پھر کیوں آپ اپنے کئے گئے وعدوں پر عمل نہیں کر پائے؟؟ آپ اپنے آپ سے سوال کریں کہ آپکی ناکامی کی وجوہات کیا تھیں؟؟ آپ تو ہیلی کاپٹر سے سفر کرتے تھے دفتر آنے اور جانے کیلئے تو زمین والوں سے رابطہ کٹ گیا تھا۔ آپ محلاتی سازشوں کا شکار ہوگئے خوشامدیوں کے گھیرے میں آگئے خود پرستی کے زہر میں ڈوب گئے ٹرولرز کے ذریعے سیاست کرنی چاہیے کارکنوں سے رابطہ منقطع ہوگیا۔ حقائق سے دور ہوتے چلے گئے آخر کار جب آنکھ کھلی تو اپنے کو زمین پر گرا پایا۔ محسنوں کو مطعون کیا اللہ کو اپنے تکبر سے ناراض کیا۔ آپ بھول گئے کہ اصل حاکمیت اللہ پاک ہی ہے آپ کو وقتی حکومت دی گئی تھی، آپ سے عروج سنبھالا نہ گیا۔
٭٭٭٭