ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبروں کو مبعوث فرمایا پھر نبوت کا سلسلہ ختم کرنے کے بعد اولا اور صوفاف کی شکل میں ہر دور میں اپنے بندوں کو منتخب کیا جو اپنے رب اور نبی کے پیغام اور تعلیمات کے نور سے منور ہو کر انسانیت کی فلاح و بہبود کا عظمت فریضہ انجام دینے لگے۔ ان میں2 بہت سارے اولا اور صوفام ایسے بھی ہیں جو شعر اور ادب کے ذریعے انسانوں میں محبتوں کے موتی بکھر تے رہے۔ شاعر صوفا نے اپنی شاعری کو انسانیتو ںکی اصلاح اور بقا کے لیے اس انداز میں کام کہ ہر کوئی اس سے مستفیدر ہو۔ ہر کسی نے ان کے کلام سے اپنے ظرف اور ادراک کے مطابق فیض حاصل کیا۔ ان صوفی شعرا نے بہت عام فہم انداز میںاپنے افکار پیش کیے، انہیں صوفیا اور افکار کو مزید وسعت عطا کرتے ہوئے آج کے قدیم و جدید شعرا نے بھی اپنے اپنے انداز میں، بالواسطہ یا بلاواسطہ ، کم یا زیادہ انسانی حقوق کی بات ضرور کی ہے۔انہی میںب سے ایک نام ڈاکٹر مقصود جعفری کا بھی ہے جن کی شخصیت محبت ، رواداری ، خلوص ، انسان دوستی اور انسانیتوں کے دکھ درد کا مداوا بن کر ہمارے سامنے آتی ہے۔مقصود جعفری عہدِ حاضر کے شاعر،ادیب،کالم نگار ہیں ۔وہ گزشتہ 43 برس سے اردو ادب کے لیے اپنی خدمات پیش کر رہے ہیں، جنھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز اردو شاعری کی تصنیف “متاعِ درد” سے کیا جونومبر 1971 کو ایس ٹی پرنٹرز راولپنڈی سے شائع ہوئی ۔بعد ازاں مقصود جعفری نے نہ صرف اردو شاعری بلکہ فارسی، پنجابی، کشمرای اور انگریزی شاعری کی تقریبا ڈیڑھ درجن تصانیف لکھیں اور مزیدلکھ بھی رہے ہیں۔اِس کے علاوہ انھوں نے نثری نگارشات میں بھی اپنی خدمات پیش کی ہیں ، جو مذہب ، فلسفہ ، انسانیت اور کشمیر کے موضوع پر ہیں۔ان کی مطبوعہ تصانیف کی کل تعداد32ہے اور حال ہی میں ایک نئی کتاب بعنوان “روزنِ دیوارِ زنداں” جولائی 2021 میں شائع ہوئی ہے ۔اگر عہدِ حاضر میں” انسانیت اور انسانی حقوق کی بات کی جائے تو ہمیں مقصود جعفری ایک نمائندہ شاعر کی طرح سے ابھر کر سامنے آتے ہیں ۔مقصود جعفری کی شاعری وقتی ، عارضی ، صحافتی اور احتجاجی نوعیت کی نہیں ہے اور نہ ہی رومانوی شاعری جو عام طور پر شعرا کو عوام میں مشہور اور ہر دلعزیز بنا دیتی ہے۔ ان کی شاعری ایک آفاقی ،پایمِ محبت کی حامل ہے۔ ایسی شاعری جس میںانسانی تہذیب ، انسانی اقدار ، انسانی حقوق اور انسانیت کا درد موجود ہو تو وہ شاعری مرتی نہیںبلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک سایہ دار تناور درخت کی شکل اختیار کرتی چلی جاتی ہے۔ انھوں نے جا بجا اپنی شاعری میں غزل اور نظم کی صورت میں انسانی حقوق کی بہترین عکاسی کی ہے۔آپ انسانیت کے سب سے بڑھ کر قائل ہیں اور مذہب کو نفاق کے بجائے اتفاق اور ہم آہنگی کے ساتھ رواداری کی علامت سمجھتے ہیں ۔ آپ کا کلام آفاقی اور ہر دور کے لیے موزوں ہے۔ انھوں نے مذہب و ملت، ملک و قوم، رنگ و نسل اور زبان سے بالا تر ہو کر انسانیت کا عالمگیر اور ہمہ گیر فلسفہ پیش کیاجس کی ہمیں آج بہت زیادہ ضرورت ہے۔ انسانیت اور انسان دوستی، مذہبی رواداری اور دوسروں کے فکر و نظریے اور مذہب کا احترام، دوسرے مسالک اور مکاتب فکر کے لیے برداشت اور وسعت ایک عصری تقاضا ہونے کے باعث مقصود جعفری ہمیں اس بناسدی نکتے کا درس دیتے ہیں ۔
رنگ و نسب کے فتنے کچھ اس طرح سے جاگے
خوں ریز دستِ انساں اب کے کہاں نہںے ہے
مذہب کی نفرتوں نے دنا بنا دی دوزخ
دناب میںر اب کہںن بھی جائے اماں نہںد ہے(٢)
مقصود جعفری انتہائی نرم دل انسان ہیں ، اسی لیے تمام انسانوں کے دکھ درد کو انتہائی گہرائی سے محسوس کرتے ہیں چونکہ آپ کا مطالعہ اور مشاہدہ عمقہ اور وسعا ہے اسی لیے انھوں نے اپنی وسیع القلبی سے تمام فطری انسانی اقدار کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا۔ انھوں نے نیک نیتی کے ساتھ انسانیت کے اتھاہ ساغر میں غوطے لگائے اور ہر اس شے کو دل کی گہرائی میں اتارا جو انسانی تھی اور جس کی مستقل قدروقیمت ہے۔ انسان کے دل کی ہر آرزو ، حسرت ، تمنا ، دکھ درد اور خواب ان کے تخیل اور وجدان کا حصہ بن کر ان کی تخلقاست میں رچ بس گئے ہیں۔ ان کی شاعری میں ہمیں ہمیشہ سچ کا روپ دکھائی دیتا ہے۔ آپ خالص انسانیت کے پجارہیں اور بگادنہ پن کے تصور کو کبھی خاطر میں نہیں لاتے۔انسانیت سے بے پناہ محبت انھیں اپنے اصولوں سے قریب کر دیتی ہے۔آپ انسانیت کے علمبردار مانے جاتے ہیں۔ محمد اشرف ذکی آپ کے “شاعرِ انسانیت” کے خطاب کی وضاحت کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
مجھے ان سے انسانیت ، آزادی ، مساوات ، جرت و صداقت ، مذہبی رواداری ، بقائے باہمی ، ظلم و جبر کے سامنے سینہ سپر ہونا اور مظلوم کی حمایت کے عظیم درس ملے ہیں۔۔۔ان کے تئیں انسان کے خون کا احترام واجب ہے۔نسلی ، مذہبی ، علاقائی ، لسانی اور نظریاتی بنیادوں میں خون انسان بہانا حرام ہے۔وہ انسان کو مقدس سمجھتے ہیں۔تمام مذاہب کے احترام کے قائل ہیں۔انسانی اقدار کے تحفظ کو لازمی گردانتے ہیں۔ان کی ساری شاعری کا مرکز و محور صرف اور صرف محبت انسان ہے۔خدا کے نام پر انسانوں کا قتل خدا کے ساتھ مذاق ہے۔وہ امن و انسانیت کے پرچارک ہیں۔اسی بنا پر انہیں “شاعر انسانیت” کا خطاب دیا گیا ہے۔ (٣)
ہر انسان اپنے معاشرے میں ایک مقام رکھتا ہے اور اس معاشرے کی اصلاح اور بہتری میںو اپنا کردار ادا کر سکتا ہے۔ معاشرے کے اندر لوگوں کی تربتں اور ایک دوسرے کے ساتھ اخلاقی بلندی، مذہبی رواداری اور سماجی معاملات کی درستگی کے لے مخلوق میںے بلا تفریق محبت کے پھول نچھاور کرنا مقصود جعفری کا اصل پیغام ہے۔ مقصود جعفری انسانیت کی بنا پر سب کو ہمدردی اور بھائی چارے کا درس دیتے ہیں۔ مقصود جعفری کی حق گوئی، سچائی اور انسانیت کے درس نے تمام مفاد پرست حلقوں کو جو مذہب کو صرف اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کر کے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں کو مخالف بنا دیا ہے لیکن پھر بھی مقصود جعفری نے ان کی پرواہ نہیں کی اور لوگوں میں محبت کی خوشبو پھلا نے کا فریضہ انجام دیتے رہتے اور ان میں رواداری، مذہبی ہم آہنگی، بردباری اور برداشت کے موتی بکھریتے رہتے ہیں۔
یہ حقیقت وگن کی زمیںنہیں یہ طلسم گاہِ خاکل ہے
میںد سفرِی خطِ امن ہوں مرنا اس پہ جناف محال ہے
نہ دلوں میںِ زخمِ وفا رہا نہ لبوں پہ حرفِ دعا رہا
جو رہا تو مکر و دغا رہا مر ا عہد عہدِ زوال ہے
مقصود جعفری کی شاعری میںو انسانیت کا پیغام بھی ہے اور محنت کشوں کے حقوق کا ذکر بھی، غربت میںو بھی ہے اور غلامی کے خلاف جہاد کا درس بھی۔ آپ کی شاعری ایک انقلابی شاعری ہے جو فطرت کی صحیح معنوں میں عکاسی کرتی ہے۔ ملک کی ترقی، اصلاح معاشرہ اور انقلابی قوتوں کی آبادی مقصود جعفری کا دل پسند مشغلہ ہے لیکن ان کے لیے وہ وطن کے نوجوانوں پر ہی انحصار کرتے ہیں کہ قوم کے نوجوان ہی اس میں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ آپ کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ سیاسی غلامی، سماجی بے انصافی، اقتصادی پسماندگی، تمدنی گراوٹ اور باہمی دشمنی دور ہو اور ان کی جگہ مساوات، آزادی، ایکتا اور محبت لے لیں۔ آپ ایک نئے منصفانہ سماج کی تعمر چاہتے ہیں جس میں انسان صیح معنوں میں انسان بن جائے۔
مجھ سے کرو نہ واعظ دیر و حرم کی باتیں
میں کر رہا ہوں تم سے انساں کے غم کی باتیں٥
مقصود جعفری انسانوں کو انسانیت سکھاتے ہیں اور ان کو گمراہی سے بچانا چاہتے ہیں۔ پسماندہ لوگ ایسے شاعر کو پسند کرتے ہیں جو ان کی پسماندگی کی تعریف کرے لیکن مقصود جعفری اس بات کو ناپسند کرتے ہیں۔ انھیں بار بار ایسی باتیں کہنا پڑیں جو عوام کے جذبات، خیالات اور عقائد سے ٹکراتی ہیں لیکن وہ ایسا کرنے سے نہ ڈرتے ہیں اور نہ جھجکتے بلکہ وہ اپنی باتوں کو میٹھی زبان میں ادا کرتے ہیں پھر جو ایک مرتبہ ان کے پاک و بلند خیالات سمجھ جائے تو ان کی شاعری پر فریفتہ ہو جاتا ہے۔ درحقیقت کوئی بھی ذی شعور انسان مقصود جعفری کی نظموں اور غزلوں کو کسی طرح نظر انداز نہیں کر سکتا۔ مقصود جعفری کو یقین کامل ہے کہ وہ دن بھی جلد آئے گا جب ان کا پیغام رنگ لائے گا اور وطن میں آزادی، مساوات، اخوت، اتحاد اور ترقی و خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔
تجھ کو خبر ہے اے مرے پروردگار کچھ
کا کار ستم ہوئیہیںو یہاں آدمی کے ساتھ
کہتیہیںہ لوگ شاعرِ انسانت مجھے
دو چار روز تم بھی رہو جعفری کے ساتھ(٦)
مقصود جعفری کی شاعری محبت، رواداری، خلوص، انسان دوستی اور انسانیت کے دکھ درد کا مداوا بن کر سامنے آتی اور ہر درد مند و غم زدہ کے دکھ اور پریشانی کو محسوس کر کے ان کی مظلومیت اور محرومی کی آواز بن جاتی ہے۔
مسلک کا مریے نام ہے انسان دوستی
انساں ہوں مجھ کو جعفری انساں سے پاور ہے(٧)
مقصود جعفری کا ایک قطعہ ملاحظہ فرمائیں جو آپ کے حقیقی “شاعرِ انسانیت” ہونے کی دلیل ہے۔
میںص تو ماعنِ خلق ہی رہتا ہوں روز و شب
مانوس کسیا کرتی یہ رہبانتو مجھے
انساں کا درد رکھتا ہوں مقصود جعفری
کہتیہیں لوگ شاعرِ انسانتی مجھے(٨)
الغرض مقصود جعفری کی شاعری پڑھ کر اور سمجھ کر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آپ انسانتھ کے درماخن زبان، نسل، علاقے اور مذہبی جماعتوں کے قائل نہیں ہیں بلکہ انسانیت کے آفاقی نظریے کے تحت معاشرے کی تشکیل اور فلاح چاہتے ہیں۔ آپ کی شاعری مخلوقِ خدا سے انس و محبت، ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھنے، رنگ، نسل، زبان اور مذہب سے بالاتر ہو کر صرف انسانیت کے رشتے کی بات کرتی ہے۔ آپ کی شاعری نے دلوں میں انسانیت کی تخم ریزی کی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پید ا کرنے اور محبتوں کے رنگ بکھیرنے کے لیے آج مقصود جعفری کے کلام سے استفادہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ مقصود جعفری ایک سدابہار شاعر اور مفکر ہیں جس کی افادیت اور ضرورت کبھی کم نہیں ہوگی۔
حوالہ جات
1.جعفری، ڈاکٹر مقصود (جولائی 2021) ، “روزنِ دیوارِ زنداں” ، راولپنڈی ،ایس ٹی پرنٹرز (ص 178)
2.جعفری، ڈاکٹر مقصود (25 اگست 2015) ، “جبرِ مسلسل” ، اسلام آباد ،پاک مڈتیا فانڈیشن (ص ٠٧)
3.جعفری، ڈاکٹر مقصود (2018) ، “گنبدِ افلاک” ، لاہور ،فکشن ہاس (ص 32)
4.جعفری، ڈاکٹر مقصود (جنوری 2010) ، “اوجِ دار” ، راولپنڈی ،ایس ٹی پرنٹرز (ص 193)
5.جعفری، ڈاکٹر مقصود (2018) ، “گنبدِ افلاک” ، لاہور ،فکشن ہاس (ص 58)
6.جعفری، ڈاکٹر مقصود (25 اگست 2015) ، “جبرِ مسلسل” ، اسلام آباد ،پاک مڈتیا فانڈیشن (ص 85)
7.جعفری، ڈاکٹر مقصود (جولائی 2021) ، “روزنِ دیوارِ زنداں” ، راولپنڈی ،ایس ٹی پرنٹرز (ص ٣٦٢)
8.ایضا ، (ص 104)
٭٭٭