ایک طرف بازاری ہجوم یا ڈیفالٹ !!!

0
56
سردار محمد نصراللہ

قارئین وطن! پاکستان کا طول و ارض ڈیفالٹ کے بھنور میں پھنسا ہوا ہے ۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ ماہر معاشیات قوم کے دیوالیہ پن کا مزدہ سناتے ہیں نیشنل ٹی وی پر بتایا جاتا ہے کہ قومی خزانے میں ارب روپے ہیں جس میں ارب کی ملکیت سعودی حکومت کی ہے ارب اپنے چینی بھائیوں کے ہیں اور باقی یونائیٹڈ عرب ایمریٹس کی ہے جب یہ بیانات اور خبریں سنتا ہوں تو ایک خوف میں مبتلا ہو جاتا ہوں کہ یہ مملکتِ خداداد پاکستان ہے جو قائید اعظم نے برصغیر کے پسے ہوئے مسلمانوں کے لئے ایک فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی تھی لیکن ایسا لگتا ہے کہ ملک چوروں لٹیروں اور خائین جھتہ کے لئے بنا کر چلے گئے جن لوگوں نے ملک کو دیوالیہ بنا دیا ہے کہ قائید کی قوم دنیا میں بھکاری بن کر رہ گئی ہے ۔راقم کوئی ماہر معاشیات نہیں بلکہ معاشیات کی الف بے بھی نہیں جانتا لیکن ایک سوچ و فکر کرنے والے شہری کی حیثیت سے حالات کی سنگینی کو محسوس کرتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ ہمارے اربابِ اختیار ملک کو کس ڈگر پر لے کر جا رہے ہیں ۔
قارئین وطن! دوسری جانب جب میں بازار میں نکلتا ہوں مارکیٹوں کا رش دیکھتا ہوں سڑکوں پہ ہجوم دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ ڈیفالٹ کا چرچہ کرنے والے جھوٹے لگتے ہیں کیوں کہ مجھے ایک شکر قندی بیچنے والے کی ریڑی سے لے کر لبرٹی انار کلی مال روڈ غرض ہر جگہ ہجوم ہی دیکھا مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ دو ماہ سے اپنے ثانی ملک امریکہ سے آبائی ملک اپنے عزیزوں اقارب سے ملنے کے لئے آیا ہوا ہوں ،صرف گھر کی گراسری سے میرے کریڈٹ کارڈ نچڑ گئے ہیں اور رو رو کر کہتے ہیں کہ سردار اب نہ ہمیں مارکیٹ بھیج ، آبائی مٹی سے محبت اس پر مجھ کو ایک پرانا شعر یاد آگیا!
بھاگتے کتے نے اپنے ساتھی کتے سے کہا
بھاگ ورنہ آدمی کی موت مارا جائے گا
جب میں نے اپنے استاد علامہ تنویر صاحب سے ذکر کیا کہ استاد جی بازار میں تو تل دھرنے کو جگہ نہیں ہے ہر طبقہ خرید و فروخت میں مصروف ہے لیکن ٹی وی پر ہر خبر نامہ ڈیفالٹ کی خبر سنا رہا ہے تو انہوں نے کہا اس کو ریسیشن کہتے ہیں پھر انہوں نے مثال دے کر بتایا کہ سری لنکا میں جب انقلاب آیا تو ایک دن پہلے اسی طرح بازاروں میں ہجوم تھا اور دوسری طرف ان کا دیوالہ نکلا ہوا تھا ۔ اب نظر دوڑاتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ واقعی امپورٹڈ حکومت ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ہمیں ڈیفالٹ کی جانب لے کر جا رہے ہیں ۔ اللہ سے دعا ہے کہ پرور دگار ہمیں سری لنکا کی جانب نہ لے کر جانا کہ مملکتِ خداداد کسی اور مشرقی پاکستان جیسے سانحہ کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔
قارئین وطن! ڈسمبر بھی سر پر آ پہنچا ہے ہائے وہ بدقسمت دن جس دن مملکت پاکستان کو نادیدہ ہاتھوں نے دو لخت کیا اب صرف اس دن کی یاد ہی رہ گئی ہے ورنہ بات کرنے کو دل بھی نہیں کرتا کہ بے حسی نے اتنا گھیرا تنگ کردیا ہے کہ لفظ افسوس بھی پیچھے رہ گیا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بنگالی ہم سے اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ جیلیسی ہونے لگی ہے کہ ہم جنہیے ماڑے ماڑے لوگ سمجھتے تھے وہ اتنے قد آور ہو گئے ہیں کہ ہم ان کے مقابلہ میں ماڑے لوگ ہو گئے ہیں لیکن اتنی بڑی بربادی کے بعد بھی ہم لوگوں کو ہوش نہیں آیا وہ ایک قوم بن گئے ہیں اور ہم بکھر کر رہ گئے ہیں ،ہمارے حکمران چور خائین اور کیڑے ہیں اور ان کے نیشن بلڈر ہیں یہاں امپورٹڈ حکومت ہے ان کی اپنی ہے یہ تو بھلا ہو عمران خان کا کہ اس نے آزادی کا نعرہ بلند کیا ہے اور عوام میں ایک شعور کی رمک نظر آ نی شروع ہوئی ہے ۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ کو بھی اب سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ملک کی سلامتی چاہتے ہیں اور معیشت کو پٹری پر ڈالنا چاہتے ہیں تو فوری انتخابات کروائیں ملک کو دیوالیہ سے نکالنے سے یہی ایک راستہ بچا ہے ۔
قارئین وطن! اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان کے گلے میں امریکن پھندا ڈالنے کے بجائے وطن عزیز کی سیاسی اور معاشی صورت حال کا جا ئیزہ لینے کی ضرورت ہے اور اس تناظر میں ملک کی بہتری کا سوچنا چاہئے ایک بات ان کو سمجھ جانی چاہئے کہ آج فیصد عوام خان کے ساتھ ہے اور امپورٹڈ حکومت اور اس کی پشت پناہی کرنے والوں کے بس میں کچھ نہیں ہے سوائے صاف اور شفاف الیکشن کروانے کے ان کو چاہئے کہ نواز شریف جیسے سیاسی بتوں میں جان ڈالنے کے بجائے سنجیدگی سے کروڑ عوام کے مستقبل کے بارے میں سوچیں ۔عدلیہ کو بھی ملک کی سلامتی کے حوالے سے میدان عمل میں اترنے کی ضرورت ہے کہ اسی میں سب کی بقا ہے خاص طور پر اس ریسیشن سے نکلنے کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ میرے منہ میں خاک ہم سری لنکا یا روانڈہ نہیں بننا چاہتے ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here