اس ہفتہ فنون لطیفہ کے تعلق سے۔ ہالی وڈ میں ہر سال دیئے جانے والے اکیڈمی ایوارڈ(آسکر) کا چرچہ رہا۔ فٹ بال کے بعد یہ ہی شو بڑی تعداد میں شائقین فلم اور فلم بین کی پسند ہوتا ہے اور مارچ کے ماہ میں کیلی فورنیا(لاس اینجلز) سے لائیو براڈ کاسٹ کیا جاتا ہے، اس دفعہ بھی دنیا بھر ایک کروڑ اور ستاسی لاکھ(18.7 millian)لوگوں نے بیک وقت دیکھا۔ اس دفعہ کے میزباں ٹی وی کے مشہور لیٹ نائٹ شو کے جمی کیمل تھے اور ان کی ذات سے توقع تھی کہ شو معیاری ہوگا اور اس میں کوئی چھچوراپن نہیں ہوگا جو پچھلے سال دیکھنے میں آیا تھا۔ البتہ ملالہ یوسف زئی جو ڈیزائنر لباس میں اپنی مختصر دستاویزی فلم کی نمائندگی کرنے آئی تھی شرمائی شرمائی رہیں اور جمی کیمیل کے طنز کو نہ صرف لوگوں نے سمجھا بلکہ ہر طرف سے دوسرے دن تیروں کی بوچھاڑ ہوگئی۔ وہ ایوارڈ تونہ جیت سکیں نصف نوبل پرائز کے بوتے پر شہرت یافتہ ہیں اس میں دوسروں کا ہاتھ ہے۔ خیال رہے آج کی دنیا میں آب کسی پر بھی اعتماد نہیں کر سکتے اور مغرب اگر کسی مسلمان یا غریب ملک کے کسی کردار کو لے کر چلتا ہے تو اس کے پیچھے سیاست ہوتی ہے۔ مثلاً اس جملے کو لے لیں امریکہ امن کا پیا مبر ہے اور لوگوں کو یقین ہے جب کہ فلسطین اور کشمیر میں بربریت اور ظلم کی تاریخ لکھی جارہی ہے اور امریکہ خاموش تماشائی بنا بیٹھا ہے۔ اس کے برعکس امریکہ کا ہالی وڈ بہت حد تک دنیا کے ہر پسماندہ اور غریب ملک کے غریب لوگوں کی کہانی بیان کرتا رہتا ہے۔ ہولوکاسٹ سے ویٹ نام تک اور اس خوبصورتی سے کہ آپ کے آنسو نہ رک سکیں۔ ہم پاکستانی اس بات کو نہیں سمجھینگے کہ وہ اللہ ہو تو کرتے ہیں لیکن اللہ کی بنائی چیزوں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ ملک ملک گھومتے ہیں آکر صرف کھانوں کا ذکر ہوتا ہے تاریخ کا نہیں ہم پچھلے40سال سے ہر طرح کی فلموں سے جڑے ہیں۔ اکیڈمی ہمیں بھی اپنے دس ہزار ممبروں میں شامل کرلیتی اگر ہم دلچسپی لیتے۔ یہ دس ہزار ممبر وہ ہیں جو اکیڈمی ایوارڈز کے لئے شامل ہونے والی فلموں میں ایک خاص تعداد کے ساتھ نامزد کرتی ہیں۔ یعنی بہترین نامزد فلموں کی تعداد دس ہے جب کہ ہر کیٹیگری میں5ہے۔ نامزدگی کی تعداد ہمارے پڑھنے والوں کے لئے فلم سے متعلق کیا بات دلچسپ لگتی ہے اس کا پتہ چلانا مشکل ہے خاص کر ایسے ماحول میں جہاں دو ماہ پہلے سے لوگ رمضان مبارک کا اعلان کر رہے ہیں۔
پچھلے دو ماہ سے انڈیا زبان میں بنی فلمRRRکا چرچا زد عام ہے گولڈن، گلوب(دوسرا بڑا ایوارڈ) میں یہ فلم دو کیٹگری میں نمائندگی کرچکی ہے جب کہ صرف اسکے گانے کو جس کے بول تھے۔ ناتو ناتو(ناچوناچو) کو اورخبل سونگ کا ایوارڈ ملا تھا اور فلم رہ گئی تھی اس دفعہ راجہ مولی(ڈائریکٹر اور ایجنسی) نے اکیڈمی ایوارڈ کو الّو بنانا چاہا تھا۔ ان دس ہزار ممبران میں آدھے سے زیادہ بولی وڈ زدہ نئی نسل کے جاہل شامل ہیں۔ جو پڑھتے لکھتے سوچتے نہیں ہیں۔ زندگی کو سپرٹ دواڑتے ہیں فاسٹ فوڈ کھاتے ہیں اور گرل فرینڈز رکھتے ہیں یہ تو شو بزنس ہے۔ اکیڈمی نے ترس کھا کر اس کے گانے کو ایوارڈ دے دیا لیکن فلم کو نامزدگی سے دور رکھا کہ کہا یہ جاتا ہے کہ دو نوجوانوں کی کمپنی کے خلاف تحریک تھی جب کہ ایسا کچھ نہیں آخری ایک گھنٹہ سے زیادہ انگریزوں کی پوری فوج سے تین آدمی لڑرہے ہیں۔ جن کے ہاتھوں میں تھری ناٹ تھری ہے یہ صرف انڈین اور وہ بھی دھارمک(رامائن دیوتائوں کے معجزے آدمی کا خلا میں چھلانگ لگانا آبشار کے مخالف پہاڑ پر چڑھنا شامل ہے) فلموں میں ملتا ہے فلم کے ڈائریکٹر راج مولی کی یہ تیسری فلم تھی جس میں ہماری پنجابی فلموں سے کہیں زیادہ اندھی مچائی ہے اور ہندوستان کے کم ازکم20کروڑ شودیوتا کے پجاری اس فلم کو دیکھ کر خوش ہیں۔ تنیوں فلموں نے انڈیا کی تاریخ میں ریکارڈ توڑ بزنس کیا ہے ہم تو راج مولی کو ڈائریکٹر ہی نہیں مانتے جو انسانی جزبات منظرنامہ سے زیادہ دیوتائوں کے معجزے دکھاتا ہے اور عوام کو اور بھی جابل کر رہا ہے۔ ہندو نواز میڈیا جو امریکہ کے ہرOUTLETمیڈیا میں ہے۔ اکیڈمی ایوارڈ کمیٹی کو متعصب کیا ہے۔ اس بات کا فیصلہ آپ فلمRRRدیکھ کر سکتے ہیں جو اپنی طوالت کے ساتھ بور فلم ہے۔
ہالی وڈ شاید بلکہ یقینی طور پر واحد ادارہ ہے جہاں فلموں میں آنے اور اپنا ہنر دکھانے کے لئے، عمر، رنگ، نسل، مذہب شکل اور کسی زبان کی کوئی قید نہیں۔ آپ ہندو ہو یا مسلمان، عربی ہوں یا تائیوانی، ویت نامی کورین، چائینز فرنچ، روسی، افغانی، ایرانی، یا جاپانی ہر کوئی اپنے فن کے ساتھ خوش آمدید ہے۔ اور اس کا ثبوت95ویں آسکر ہیں دو اہم ایوارڈ امریکی برینڈن فریزر اور جیمی لی کرٹس کے علاوہ ”تمام ایوارڈز دوسروں کے حصے میں آئے ہیں ہم دل کی گہرائیوں سے اکیڈمی ممبران کے اس جزبے کی تعریف کرینگے بہترین اداکار ایڈونچر فلموں کے اداکار برینڈن فریزر اور اداکارہ کا ایوارڈز بالترتیبTHE WHALEاور ایوری تضگ ایوری وہیر آل ایٹ ونس(ETEWAAO)میں مشل یو کو ملا، بہترین فلم، بہترین سیوزک، سپورئنگ ایکٹریس جے می لی کرٹس(ٹونی کرٹس کی بیٹی) کوہETEWAAفلم میں دیا گیا۔ ہدایت کاری کے لئے بھی اسی فلم کو چنا گیا۔ تین گھنٹے کا یہ شور دلچسپی کے ساتھ دیکھا گیا۔
اکیڈمی ایوارڈز کے لئے اتنا ہی کافی ہے ہمارے پاکستانیوں کے لئے تو اب ان لئے کیا لکھیں کہ صبح سے شام ہر لمحہ ہاتھ میں دے فون پر اچھلتے ہیں۔ کسی نے کہا انٹرنیٹ اور آئی فون سے زندگی آسان ہوگئی ہے جی ملا حظہ ہو اگر کوئی قسم کھا کر بتا دے کہ اس نے ایک سال میں کوئی کتاب کوئی کہانی پڑھی ہو۔ ان کا کہنا ہے ”اللہ بہتری کرے گا” وہ کیسے جب ہم کوئی جدوجہد نہیں کر رہے جب کہ ہم یہاں آکر بھی غلط ذرائع استعمال کرنے کا سوچتے ہیں۔ یہاں پرائیویٹ ایجنسیاں ہیں جو صحت کی سہولتیں مہیا کرنے میں آپ کی مدد کرتی ہیں اچھی بات ہے یہ کام ریاست اور سٹی گورنمنٹ کی معاونت سے ہو رہا ہے۔1980میں باہر سے ڈگری یافتہ فارماسٹ اور ڈاکٹروں نے عمارتیں کھڑی کرلیں۔ غلط دوائیں غلط لوگوں کو بیچنے کے الزام میں جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑے کچھ مال لوٹ کر امریکہ سے فرار ہوگئے۔ ریاست نیویارک کو ان کی تلاش ہے یہ ایک عام آدمی اور ڈاکٹر کا کمال تھا جب پاکستان اتنا نہیں بگڑا تھا لوگ باشعور پڑھے لکھے گھروں سے تربیت یافتہ تھے جو حرام کمائی اور حلال کمائی کا فرق جانتے تھے یہ جب کی بات ہے اور آج40سال کے بعد یہ تاریخ دہرائی جارہی ہے۔ اس کی ایک تفصیل ہے اور ہم لوگوں کو ناراض کرنا نہیں چاہتے اندازہ اس سے لگا لیں کہ میرے چھوٹے بھائی کے جسم میں دسSTUNTSپڑے ہوئے ہیں۔ سرجن کھّنہ کا کہنا ہے ہسپتال بھی اس فراڈ میں شامل ہے جو کارپوریشن ہیں اور ایک اسسٹنٹ کا خرچہ کم ازکم بارہ سے پندرہ ہزار ڈالر ہے جی ہاں صرف آدھ گھنٹے کا کام ہے۔ایک تفصیل ہے خود تجربہ کیجئے۔
٭٭٭٭