اکثر اوقات ایرانی لوگوں سے جب ملاقات ہوتی ہے تو وہ ایران کی ماضی میں خوشحالی کے قصے سناتے ہیں اور موجودہ صورتحال پر افسوس کرتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو تک سامنے آ جاتے ہیں۔۔۔
ایرانی معاشرے میں کھانا ، پینا اور رہنا یعنی گھر بار کبھی کسی شہری پر اس قدر بوجھ نہیں ہوتے تھے۔۔ آج ایران میں ایک عام آدمی کی زندگی اجیرن ہوکر رہ چکی ہے، خطے میں سب سے زیادہ مہنگائی کا اثر ایران پر پڑا۔۔۔۔ سمندر پار ایرانیوں کا کہنا ہے کہ اب ان کے ملک میں لوگوں کی آمدنی اخراجات سے بڑی حد تک کم ہو چکی ہے۔۔۔۔
پتا نہیں کیوں پاکستان کے بارے میں یہ تصور کرنا بھی میرے لیے ممکن نہیں کہ پاکستان میں کبھی اس طرح کے حالات جنم لیں۔۔۔۔ مگر ہمارے حکمرانوں اور بنائی جانے والی معاشی پالیسیوں کا جو عشق معاشقہ چل رہا ہے،،، بعید نہیں کہ مستقبل میں اس سے کچھ بھی جنم لے سکتا ہے۔۔۔
آج ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت سے چار گنا زیادہ قرضہ لیتی ہے۔۔۔ قیمتوں میں دو گنا اضافہ کر جاتی ہے۔ تنخواہوں میں آٹے میں نمک کے برابر ریلیف دیا جاتا ہے۔ ان حالات میں لوگوں کا جینا مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔۔۔
مہنگائی دنیا بھر میں کہیں بھی کم نہیں ہوئی اور نہ ہوگی۔ دنیا بھر میں رہنے والے لوگ دس سال پہلے کی قیمتوں کا آج سے موازنہ کرتے ہیں تو بتاتے ہیں کہ اگرچہ مہنگائی ہوئی مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوا، مگر پاکستان میں اس معاملے پر آج تک کسی حکومت نے توجہ نہیں دی۔۔۔ پاکستان میں آج کم سے کم اجرت 35 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔۔ مطلب کے امریکی ڈالروں میں شاید 120 ڈالر بنتی ہے۔۔ 2014 میں یہی تقریبا دو سو امریکی ڈالر بنا کرتے تھے۔۔۔۔ یعنی ہم حقیقت میں آمدن کے معاملے میں بھی اوپر نہیں بلکہ نیچے جا رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ مہنگائی کرنے کے لیے پاکستانی حکمرانوں کے پاس ہزار پالیسیاں ہیں مگر لوگوں کی آمدن کو اس مہنگائی سے مقابلہ کرنے کے قابل بنانے کے لیے صرف دعوے اور نعرے ہیں۔۔۔ اگر ہم نے پاکستان میں آمدن کو اس قابل نہ بنایا جس میں کوئی شہری مہنگائی کے جن سے مقابلہ کرنے کے قابل نہ رہا تو یقینا اس کا پاکستانی معاشرے کو بھی شدید نقصان ہوگا۔۔ سادہ لفظوں میں کہنا چاہوں گا کہ پاکستان میں آمدن اور اخراجات کی موجودہ صورتحال کچھ یوں ہے جیسے دس دنوں کے بھوکے کے سامنے آپ روٹی کا ایک نوالہ پھینک دیں۔۔۔
٭٭٭