بمطابق ذوالحج ہجری بعد از فجر یہ سطور میں امارات کے جہاز میں سے تحریر کر رہا ہوں،یہ سفر جو آٹھ دن پر مشتمل تھا بہت ہی روحانی اور نورانی تھا۔ اس سال میں نے المہدی سینٹر میں ثواب زیارت الحسین ع کا عنوان شب جمعہ کی مجالس میں شروع کیا تھا جسے بڑی پذیرائی ملی۔ اگر چہ ابھی اس موضوع کی چند ہی مجالس عزا پڑھیں مگر سعادت زیارت مل گئی۔ اس سال فروری المہدی سینٹر کی دوسری بلڈنگ اور جولائی میں القرآن سینٹر کی دونوں بلڈنگز کی خریداری کے باعث ظاہرا زیارات پر جانا ممکن نظر نہیں آرہا تھا ،اسلئے کہ دونوں جگہ کی کلوزنگ کی مشکلات کی جو شرح ہے وہ اظہر من الشمس ہے۔ پھر بھی اللہ کا شکرگزار ہوں۔ چودہ معصومین ع کا ممنون ہوں اور اپنی کمیونٹی کا شکر گزار ہوں ۔ جتنا میرے بھائی بہن کر رہے ہیں وہ بہت ہی زیادہ ہے۔ اللہ انہیں جزائے خیر دے ۔ مگر مجھے لگا کہ یہ میری سال پلس کی تگ و دو قبول ہوگئی ہے ۔ اس دفعہ کی زیارات کا اہتمام بالکل نواب کربلا امام حسین ع کی توجہ خاص سے ہوا ہے ۔ کربلائی ہلکا پھلکا ہو کر واپس آگیا جس شرح سے حاکم شام کے راستے پر چلنے والوں نے ہماری کردار کشی کی ۔ناموس کی گالیاں دیں ۔ ہمارے جد اعلی علمدار کربلا کی اولاد کو شودروں سے تشبہیہ دیں۔ جلسے جلوسوں میں حملوں کے منصوبے بنائے ۔ 45 سال کے خادم منبر حسینی کی کارٹونوں والے فلائر بانٹنے کذب بیانیاں کیں ۔شاطرانہ چالیں چلیں ہمارا زیارات پر جانا ہی انکے منہ پر طمانچہ ہے ۔ ان کا سرغنہ تو آج تک گیا ہی نہیں اور نہ جا سکیگا ۔ ہو رہا ہے اور ان اکا دکا سبابوں کذابوں کو منہ چھپانے کہ جگہ نہیں مل رہی ہے ۔ اگر ہم حق پر نہ ہوتے تو ہمیں تو کوئی سلام بھی نہ کرتا۔ مگر روز بروز ہماری توقیر میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ جھوٹے مشہور ہو رہے ہیں ۔ پیر سے پیر کے سفر سے عیاں ہو گیا۔ اس سال حج پر بھی ہم امریکہ والے نہ جا سکے تھے یہ بھی قلق تھا۔ القرآن کی کلوزنگ پیر کو ہونا تھی وہ بھی جمعہ کو ہو گئی ۔ تو پیر کو ہم عازم نجف ہو پائے۔ نجف میں عرفہ کا سیزن ختم ہونے کے باوجود 24 گھنٹے کھوے سے کھوا چلتا دیکھا ہے. زیارت پر آتے جاتے پتہ ہی نہیں چلتا دن ہے یا رات ہے ۔ نجف میں غدیر تک حج سے تین گنا مجمع دیکھا گیا۔ غدیر کے روز تو میں سفر میں تھا تاہم سولہ ذوالحجہ تک تیس لاکھ لوگ تجدید ولایت کیلئے شاہ ولایت کے دربار میں پہنچ چکے تھے جبکہ اس سال دس لاکھ حاجی گئے ۔مرجع عالی قدر آیت اللہ العظمی حافظ بشیر حسین نجفی دام ظلہ نے پہلے سے زیادہ پذیرائی بخشی ۔ ملاقات میں میرے قم کے دیرینہ ساتھی علامہ احمد علی عابدی امام جمعہ بمبئی ، انکے فرزند اور مولانا نثار بلتستانی بھی موجود تھے۔ سماحت المرجع کے فرزند علامہ شیخ ابو صادق دام عزہ نے بھی بڑی عزت دی۔ مخدوم زادہ زین عباس بخاری بھی اس موقعہ پر موجود تھے ۔ مولانا سید ضامن عباس اور مولانا سید ذوالقرنین نے مرجع کے مرکزی دفتر میں خصوصی نشست کا بھی اہتمام فرمایا تھا ۔ مولانا محمد مہدی زیدی آف ہند نے اپنے رفقائے کار کے ساتھ ملکر مدرسہ صراط مستقیم بجف اشرف میں طفلان امیر مسلم ع کی مجلس شہادت رکھی تھی جبکہ مولانا شیخ احمد مولائی اور مولانا جابر حسین نجفی آف پاکستان و رفقا نے مرکزی جشن غدیر حسینہ پاکستانیہ میں رکھا تھا دونوں میں علمائے کرام کا جم غفیر تھا تھا۔ الحمد للہ ولہ الشکر۔ کربلائے معلی کا سفر ابو کرار کی گاڑی میں کیا جسکا اہتمام مولانا صفدر عباس سابقی نے کیا تھا الثقلین کمپنی کی طرف سے۔ یہ کمپنی بھی زائرین کی بڑی خدمت کر رہی ہے۔ کر بلائے معلی میں زیارات حرمین کے دوران ہچکیاں بندھتی رہیں۔ چیخیں نکلتی رہیں۔ گریہ و زاری جاری رہی، شور و شین بلند رہا، نوحہ و ماتم جاری رہا سرداب زینبیہ میں ایک بڑی مجلس سے خطاب کی سعادت بھی ملی، مصائب کے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔
اس مجلس کا اہتمام مولانا سید علی نقی الحسینی الزیدی الکربلائی نے کیا تھا۔ یہاں زین بخاری نے ریکارڈنگ بھی کی۔ عتب حسینیہ کے متولی شرعی و قانونی علامہ سید عبد المہدی الکربلائی سے شرف ملاقات ملا جو مجھے دیکھتے ہی علیل ہونے کے باوجود اپنی ویل چیئر پر کھڑے ہو گئے ۔ اللہ انہیں صحت دے یہاں مخدوم زادہ زین بخارے اور مولانا علی نقی زیدی کے علاوہ رانا محمد وقاص آف لاہور بھی شامل ملاقات تھے۔ اسکے بعد معاون خاص متولی جناب سید علا عز الدین الکربلائی سے ملاقات ہوئی جو میرے پاس کرونا کے دنوں میں المہدی میں تین ماہ رہ کر گئے ہیں۔ اور میرے بہترین دوست ہیں۔ وہیں زائرین کے معاون محسن نقوی بھی جناب زیدی کے ہمراہ مل گئے، امام حسین ع کے دستر خوان کے مہمان ہوئے۔ سید علا نے امام حسین علیہ اسلام کے حرم کی طرف سے مہمان کا خاص اعزاز بھی بخشا ،باہر نکلے تو خدام الحسین کی پریڈ ہو رہی تھی ۔ میں نے پوچھا کیا ہم بھی اعزاز خادم الحسین لے سکتے ہیں تو ایک خادم نے اپنا بیج مجھے دیا اورکہا کہ آپ خادم الحسین ہیں، میں نے کہا کل الکونین خادم الحسین ۔بلد و حلہ و کوفہ و سامرہ و کاظمین کی زیارت کے بعد واپس نجف آگئے جہاں سے واپسی ہو گئی۔ کاظمین اور سامرا و بلد میں میل میل چلنا ہوتا ہے مگر جیسے ہی میں چلنے لگتا تو کوئی نہ کوئی موٹر سائیکل سوار مجھے لے جاتا۔ بارہا پیسے دینے کی کوشش کی مگر کسی نے ہدیہ نہ لیا۔ ایسے نہیں کہ وہ آوروں کو بھی رائڈ دیتے ہوں۔ لگتا ہے میرے لیے ہی بھیجے جا رہے ہوں و تعز من تشا و تذل من تشا! جہاں تک ہو سکا ہے آپ بھائی بہنوں کو دعائوں میں یاد رکھا ہے، آپ سے بھی محتاج دعا ہوں۔
٭٭٭