مولا جٹ اور نوری نت !!!

0
214
شبیر گُل

قارئین !اپنی صحت اور اپنے جسم پر فخر کیجئے یہ اللہ رب العزت کی نعمت ہے۔ اپنی عزت اور وقار پر اللہ جل شانہ کا شکر کیجئے۔ اس نعمت کی ناقدری نہ کیجئے۔ خدا جانے لوگ جوتے کھانے کے باوجود ،عہدوں سے کیوں چمٹے رہتے ہیں۔ زندگی اور عزت بار بار نہیں ملتی اسلئے اسے سنھبالنا۔ اللہ کی اس نعمت کا شکرانہ ہے۔ قارئین ! آپ ووٹ جن بے ضمیر لوگوں کو دیتے ہیں وہ بک جاتے ہیں۔ جو اپنے ضمیر کا سودا کرتے ہیں وہ ملک کی سلامتی بھی دا پر لگا سکتے ہیں۔ ان ابن الوقت لوگوں کو ووٹ دے کر ضائع مت کریں۔ ن لیگ، پی پی، پی ٹی آئی یہ سب ووٹ کے تقدس کو پامال کرنے والے لوگ ہیں۔ اقتدار کے لئے اربوں روپے کے انسان بکتے ہیں۔ نیشنل ٹی وی پر vulgarity ،بدزبانی،ایک دوسرے کو دھمکیاں پاکستانی سیاست کا اسلوب ہے۔ ٹی وی کا کوئی بھی چینل آن کریں ۔مولا جٹ اور نوری نت سے سامنا ہوگا۔اینکرز ،صحافی ۔سیاسی مبصرین مولا جٹ کے روپ میں نظر آئینگے۔ان نوری نت اور مولا جٹ کرداروں سے نجات کا واحد حل سسٹم کے خلاف کھڑا ہونا ہے۔ مریم نواز،رانا ثنا اللہ،خواجہ سعد رفیق،عطااللہ تارڑ۔شہباز گل،چوہان اور فواد چوہدری کی گفتگو انتہائی گھٹیا اور بازاری ہوتی ہے۔ یہ لوگ نہ تو نیشنل ٹی وی پر بیٹھنے کی قابل ہیں۔ اور نہ ہی سیاسی میچورٹی ہے۔ ماں بہن کی گالیوں کیے علاوہ ہر چیز بک رہیہیں۔ لیکن آجکل یہی بازاری زبان، بیہودگی اور بداخلاقی sell ہو رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اس سارے کھیل میں انتہائی بردباری سے پتے کھیل کر ن لیگ کو گندہ کررہی ہے۔ زرداری نے شہباز شریف، اور مولانا فضل الرحمن نے زرداری کو گونگلو بنارکھا ہے۔ لیکن خود بھی منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ بارہ جماعتوں کے زردہ/ پلا گروپ نے اپنی سیاسی قبر خود کھود لی ہے۔ لیکن آئیندہ الیکشن میں عوام مہنگائی، کرپشن، بداخلاقی بھول کر جھوٹے وعدوں کی بھینٹ چڑھ جائینگے۔ عمران خان کراچی کے بلدیاتی الیکشن کے موقع پر کراچی اور سندھ کا دورہ کر رہے ہیں۔ عمران خان نے پونے تین سال کر ی کو بے یارومددگار چھوڑ دیا تھا۔کراچی کے عوام عمران کے گیارہ ارب روپے کے پیکج کو بھول کر نعرے لگائینگے۔ یہی سیاسی کلچر ہے۔
نہ آئین۔ نہ قانون ۔ نہ عدلیہ ۔ نہ کوئی مخفوظ۔ دس ہزار ارب روپیہ ان سرکاری افسروں پر صرف ہوتا ہے۔ جو نہ تو عوام کو تخفظ دے سکتے ھیں نہ اسمبلی کو اور نہ پارلیمنٹ کو۔ کیونکہ یہ خود ہی کرپٹ ہیں۔ کرپٹ نظام کے سپورٹرز ہیں۔ سابق آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کا جینا مرناامریکہ میں۔جنرل کیانی کا جینا مرنا آسٹریلیا میںجنرل مشرف کا جینا مرنا دوبئی میںراحیل شریف کا جینا اور مرنا سعودیہ عریبہ میں۔اور موجودہ جنرل باجوہ نے اپنے جینے اور مرنے کا بندوبست یلجیم میں کر رکھا ہے۔ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار ۔ پچاس فیصد بیوروکریٹس کے مفادات یورپ اور امریکہ میں ہیں۔کی رہائشیں اور بزنس ملک سے باہر ہیں۔ کوئی ایسا قانون ہونا چاہئے ۔ کہ کوئی ایسا شخص الیکشن نہ لڑ سکے جو کسی دوسرے ملک کی نیشنیلٹی رکھتا ہو۔ جس کے مفادات باہر ہوں۔ آرمی چیف، جج، بیوروکریٹ ، سائنسدان ،سینٹ اور نیشنل اسمبلی کے کسی بھی ممبر کے خلف میں ریٹارمنٹ کے بعد پانچ سال ملک میں گزارنا لازمی ہوں۔ انہی کی وجہ سے سسٹم کرپٹ اور عوام بدحال ہیں۔
الیکشن کمیشن کی غلاظت اور ججوں کی غلاظت عروج پر ہے۔ سیاسی گماشتوں کی غلاظت عروج پر ہے۔ کریمنلز، دو نمبر،
جھوٹے اور مکار لوگ ہم پر مسلط تھے اور مسلط ہیں۔ حماقتیں، ثقافتیں، غلاظیتیں یکجا ہوگئی ہیں۔
سپریم کورٹ نے بالاآخر پنجاب کی وزارت اعلی کا فیصلہ پرویز الہی کے حق میں سنا دیا۔
گورنر پنجاب کے خلف نہ لینے پر پرویز الہی نے وزیراعلی پنجاب کا خلف ایوان صدر میں اٹھایا ۔ پی ٹی آئی کے کارکنان میں خوشی اور پی ڈی ایم میں مایوسی چھا گئی۔
جو لوگ عدلیہ کو گالیاں اور جو تعریفیں کر رہے تھے۔ آج انکی رائے نے یوٹرن لیکر
ایک دوسرے خلاف عصبیت کی دیواریں کھڑی کرلیں۔پوری قوم قوم بار بار کے تجربات سے پریشان ہے۔ قوم عدالت کی طرف دیکھتی رھی۔ عدالت جی ایچ کیو اور جی ایچ کیو امریکہ کیطرف دیکھ رہا تھا۔
مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ عمران خان ملک مئں انتشار پھیلانا چاہ رہے ہیں۔ رانا ثنااللہ کو انہیں گرفتار کرنا چاہئے۔ کیا جب مولانا اسلام آباد ڈنڈا بردار فورس لائے تھے وہ انتشار نہیں تھا۔ سیاسی رہنماں کو تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔تاکہ سیاسی ورکرز میں تنا اور نفرت کا خاتمہ ہو سکے۔ مبہم فیصلے،مبہم تشریح،مبہم سوچ نے افراتفری کا ماحول پیدا کررکھاہے۔ اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کیوجہ سے لوٹے انتہائی بااثر بن جاتے ھیں کوئی عدالت اور الیکشن کمیشن ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ،ایک کرپٹ نظام انکا پشتیبان ۔عدالتیں اور ادارے کرپٹ نظام کی پیداوار ۔ مہنگائی کے اس دور میں سیاسی کھوتے بھی مہنگے ہوگئے ہیں۔ پی ٹی آئی کے سابق رہنما۔ اے ٹی ایم مشین جہانگیر ترین نے 2018 میں پچیس سے پچاس لاکھ کا کھوتا خرید کر پانچ کڑوڑ کا بیچا۔ یہی کھوتے عمران خان کے لئے درد سر اور عذاب ثابت ہوئے۔ اس وقت کہا جاتا تھا کہ کپتان نے ایک وکٹ اور گرا دی۔ لیکن آج پی ٹی آئی کے باغی کھوتے لوٹے قرار پائے۔ وزارت اعلی کے الیکشن عذاب شکن رہے ۔کئی لوگوں کو خزیمت اٹھانا پڑی۔ ارکان اسمبلی کے ضمیر جاگنے کا اندیشہ رہا۔ ارکان اسمبلی کے ہاتھوں اور سر پر چیپ لگائی ہے تاکہ کسی ممبر اسمبلی کا ضمیر نا جاگ اٹھے ۔ ضمیر جگانے کے لئے پچاس کڑوڑ فی ضمیر بولی لگائی گئی تھی۔ن لیگ ایسے ضمیر جاگنا اور پی ٹی آئی اسے لوٹا کریسی کہتی رہی ۔ ملک سیاسی مخاذ آرائی کی بے پناہ قیمت ادا کررہا ہے۔ جہاں ضمیر گر گیا ہے۔ وہاں روپیہ بھی گر رہا ہے۔ یعنی ہر طرف گراٹ ہی گراٹ ۔ کہیں ڈالر کی گراٹ اور کہیں ضمیر کی گراٹ۔ قارئین کرام بچپن میں جب ہم چھوٹے تھے۔ لوٹوں میں آنکھ کھولی،جنکی قیمت معمولی ہوا کرتی تھی۔ھمارے انکلز کرچھی، پلٹے، کپ، چینک ،گلاس،جگ اور لوٹے بناتے ہیں۔ لیکن وہ لوٹے بہت سستے بکتے تھے۔ اسکی بڑی مارکیٹ پشاور،کراچی اور افغانستان ہوا کرتی تھی۔وہ بہت مضبوط ہوا کرتے تھے۔ جہاں رکھ دو وہی پڑا رہتا تھا۔یہ لوٹے زیادہ تر ٹوائلٹ میں پیٹھ دھونے کے کام آتے ہیں۔ مگر سیاسی لوٹے ان لوٹوں سے بھی گئے گزرے ہیں۔ آج بن پیندے کا لوٹا پچاس کڑوڑ میں بک رہا ہے۔ یہ لوٹا بیشرم،ضمیر فروش،اور بیغیرت لوٹا ہے۔ اس انسانی لوٹے میں نہ شرم ہے اور نہ حیا۔ ان لوٹوں کو خریدنے کے لئے بڑے بڑے لینڈ مافیا سرگرم رہے۔ یہ مافیاز مختلف صوبوں میں پچاس فیصد سے تیس فیصد ٹھیکوں سے حکمرانوں کو یا اداروں کے سربراہوں کو واپس کرتے ہیں۔ جب چینی گندم یا کھاد وغیرہ کی خرید کی جاتی ہے تو وہاں بھی یہی مافیا سرگرم رہتا ہے۔ جیسے سندھ میں پانی اور کنٹینرز مافیا۔ اللہ بارک ان لوگوں کو غارت کرے ، ذلیل و رسوا کرے، ان پر عذاب نازل ہو۔ جنہوں نے قوم کو کنگلا کر دیا۔
سلیکٹڈ ، امپورٹیڈ مخمصے کا شکار۔۔ عمران خان جیتیں تو انکا اپنا کریڈٹ۔ ہاریں تو ملبہ سب پر ڈال دیں۔ حق و باطل کء جنگ ہے۔ جہاد ہے۔ اسلام کو بچانے کی جنگ۔صادق اور آمین کا ساتھ۔ آپ کو قبر میں فرشتے پوچھیں گے۔ کیا امین گنڈا پور اور ان جیسے شرابی اور ٹن بندے حق و باطل کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ عوام نے گزشتہ دو ہفتے اذیت میں گزارے ۔ پی پی،ن لیگ،پی ٹی آئی اور فضل الرحمن کی منفی سیاست کو قوم نے دیکھ کیا۔ سوائے جماعت اسلامی کے تمام پارٹیوں کے سربراہ کئی کئی سال سے اپنے ازخود ساختہ عہدوں پر براجمان ہیں۔ تاحیات قائدین ہوں تو عوام پس جاتی ہے۔ عمران خان تاحیات چیئرمین زرداری تاحیات پارٹی قائد۔ فضل الرحمن تاحیات قائد۔نواز شریف تاحیات قائد۔ پارٹی ڈکٹیٹر شپ قائم ہے۔ جس نے نیچے پارٹی کارکناں کو فیصلوں میں شامل نہئں کیا اسی لئے یہ لوگ بک جاتے ہیں۔ کیوں سیاسی تربیت سے نا آشنا ہیں۔ پنجاب کے وزارت عظمی کے الیکشن میں ارکان اسمبلی ہوٹلوں کی کمروں میں قیدرہے۔ پارٹی کے ذمہ داران نے ان سے ٹیلفون چھین لئے۔ یہ ممبران اسمبلی جن کی اکثریت اپنے اپنے علاقوں کے فرعون اور نمرود تصور کئے جاتے ہیں۔ بھیڑ بکریوں کیطرح ہانک کر ہوٹلوں میں لائے گئے۔ بداعتمادی دونوں طرف۔ ممبران اسمبلی پر نہ بھروسہ نہ اعتماد۔یہ بے کوقعت ممبرز کبھی بھی جسم فروشی کرسکتے ہیں۔ سنا ہے کہ طوائفوں کے بھء کچھ اصول ہوتے ہیں۔ لیکن ان سیاسی بدمعاشوں کے نہ کوئی اصول اور نہ اخلاقیات ہوتی ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے الیکشن میں اٹھارہ گروپ تشکیل دئیے گئے۔ہر اٹھارہ افراد پر دو افراد معمور کئے گئے تھے۔ باتھ روم جانے سے لیکر نماز پڑھنے تک ، ممبران کی کڑی نگرانی کی گئی۔ جیسے ان ممبران اسمبلی کی سکیورٹی اور نگرانی کی گئی۔ کاش عوام کو ایسی سیکورٹی فراہم کی جائے۔ بھیڑ بکریاں بسوں میں لاد کر پنجاب کی منڈی یعنی اسمبلی میں لائی گئیں۔ لاہور اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسٹنے والوں کو زرداری کا کہنا ہے کہ حمزہ میرا بیٹا ہے۔ ظاہر ہے جب اپنے بیٹے کی جنس پر شک ہوا تو پھر خمزہ جیسے فرعون بچے adopt کرنے میں کیا حرج ہے۔ پرویز الہی اور پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کی جانب سے پچیس مئی کو پی ٹی آئی پر پولیس تشدد کا حساب برابر کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ آئیندہ چند روز میں پولیس اور بیوروکریسی میں بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ دیکھی جائیگی۔ کسی کو بھی مرکز یا پنجاب میں سیاسی عصبیت کا مظاہرہ نہیں کرناچاہیے۔ بات دیانتداری سے ہونی چاہئے۔ اقتدار کسی کا بھی ہو۔ بیوروکریٹ اور انتظامیہ کو کسی غیرآئینی اقدام کو قبول نہیں کرنا چاہئے۔اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے دبا کا کلچر پیدا کرنا چاہئے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here