امام احمد رضا اور عربی زبان وادب !!!

0
11

چوتھی قسط
حدیت کے آئینے میں بلفظ دیگریوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ آپ کی روشن حیات من احب للہ وابغض للہ واعطی للہ ومنع للہ فقد استکمل الایمان اور الحب فی اللہ والبغض فی اللہ سے ہمیشہ عبارت رہی۔ جس کی پر نور حیات ایسی ہو تو پھر اس کی تاریخ ولادت پرجیسی بھی آیت مقدسہ کیوں نہ غماز ہو۔ یہی وجہ ہے کہ خود سیدی اعلیٰ حضرت قدس سرہ، العزیز قسمیہ فرماتے ہیں کہ اگر میرے دل کے دو ٹکڑے کردیئے جائیں تو خدا کی قسم ایک پر لکھا ہوگا۔لاالہ الااللہ اور دوسرے پر لکھا ہوگا محمد رسول اللہ جل جلالہ، وۖ۔ صرف اپنی ولادت باسعادت کا مادہ تاریخ ہی نہیں بلکہ آپ نے حیات ظاہری ہی میں وصال کے تقریباً ایک سال پہلے سورہ دہر کی آیت شریفہ سے اپنے سّن وصال کی وضاحت فرما دی تھی۔ وصال شریف میں مندرج ہے کہ٩٣٣١ھ میں جب ماہ رمضان المبارک گرمی کے موسم میں جلوہ بار ہوا تو اس وقت مسلسل علالت کی بنیاد پر آپ پر بے حد نقاہت کا غلبہ تھا اور روزہ رکھنے کی طاقت بھی مفقود تھی پھر یہ کہ گرمی بھی شدت کی تھی۔ اس کے باوجود بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ وقت کا مجدد ماہ صیام کے روزے ترک کردے اگر ایسا ہوتا تو کوئی قباحت نہ تھی کیوں کہ شرعی عذر مانع تھا مگر آپ کے ذوق عبادت نے یہ گوارا نہ کیا اور آپ نے اپنی ذات کے لئے یہ فتویٰ صادر فرمایا کہ چونکہ پہاڑ پر عموماً خنکی رہتی ہے اور میرے اندر اتنی قوت ہے کہ میں وہاں جاکر روزہ رکھ سکتا ہوں تو پھر روزہ رکھنا مجھ پر فرض ہے۔ نیتجتاً آپ نے روزہ رکھنے کی نیت سے کوہ بھوالی ضلع نینی تال کے لئے رخت سفر باندھا اور وہاں ٢رمضان٩٣٣١ھ مطابق٠١مئی١٢٩١کو سورہ دہر میںتحریر فرما کر اپنے سن وصال کی نشاندہی فرما دی۔ پھر ہوا بھی یوں کہ آپ کا وصال پر ملال٥٢صفر المظفر٠٤٣١ھ کو ہوا جو مذکورہ آیت پاک کے حروف کے اعداد کو جوڑا جائے تو نتیجہ٠٤٣١ھ برآمد ہوتا ہے۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے گستاخان رسول وہابیہ ودیابنہ کے لئے جو سرکار ابد قرارۖ کے علم غیب کے انکار کی بے جا جسارت کرتے ہیں اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ یہ کہتے اور لکھتے ہیں کہ معاذ اللہ نبی محترمۖ کو اتنی بھی خبر نہ تھی کہ کسے کہاں اور کب موت آئے گی۔ ایسے دریدہ دہنون کو ہوش کے ناخن لینا چاہئے کہ جب رسول ہاشمی وقارۖ کے فیضان کرم سے سیدی اعلیٰ حضرت قدس سرہ العزیز کے علم غیب کا یہ عالم ہے کہ آپ نے وصال سے پہلے اپنا سن وصال بتا دیا تو پھر افضل الانبیاء جناب محمد رسول اللہۖ کے علوم غیبیہ کی کیا تحدید وتبیین ہوسکتی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here