فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
100

محترم قارئین!1445ھ اسلامی سال کا آغاز تمام اہل اسلام کو مبارک ہو۔ کیونکہ اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام سے ہوتا ہے۔ محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے اس ماہ مقدس میں سید الشھداء امام عالیٰ مقام امام حسین رضی اللہ کی جرات وبہادری اور استقامت علی الحق کو خصوصاً اور عموماً آپ کے تمام رفقاء رضی اللہ عنھم کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ اسی بات کے پیش نظر پورا ماہ محرم آپ کا ذکر خیر ہوگا ،اللہ تعالیٰ آپ کے درجے بلند فرمائے اور ہمیں اور ہماری نسلوں کو حسینی کردار کے سمندر سے وافر حصہ عطا فرمائے یاد رہے کہ 10محرم الحرام اکسٹھ ہجری کو کربلا کا دلخراش واقعہ پیش آیا۔ یزید کی حکومت تھی اس نے اور اس کے کارندوں نے ظلم وستم کی عجیب داستان رقم کی جبکہ امام علی مقام رضی اللہ عنہ اور آپ کے رفقاء نے صبرواستقامت کا شاندار عملی نمونہ پیش کیا۔ کربلا کی دوپہر کے بعد وقت انگیز داستان سننے سے پہلے ایک لرزہ خیز اور درد تک منظر نگاہوں کے سامنے لائیے صبح سے دوپہر تک خاندان نبوت کے تمام چشم وچراغ اور جملہ اعوان وانصار ایک ایک کرکے جام شہادت نوش کرچکے تھے۔ سب نے دم رخصت دل کی زخمی سطح پر ایک نئے داغ کا اضافہ کیا ہر تڑپتی ہوئی لاش کی آخری ہچکیوں پر امام عالی مقام میدان میں پہنچے۔ گود میں اٹھایا، خیمے تک لائے، زانو پہ رکھا اور جاں نثار نے دم توڑ دیا۔ نظر کے سامنے جن لاشوں کا انبار ہے ان میں جگر کے ٹکڑے بھی ہیں اور آنکھ کے تارے بھی، بھائی اور بہن کے لاڈلے بھی اور باپ کی نشانیاں بھی ان بے گور دکفن جنازوں پر کون قائم کرے، کون آنسو بہائے اور کون جلتی ہوئی آنکھوں پر تسکین کامرہم رکھے تنہا ایک امام حسین اور دونوں جہان کی امیدوں کا ہجوم ایک عجیب درد انگیز عالم ہے۔ قدم قدم پر نئی قیامت کھڑی ہے ،نفسی نفسی میں درد واندو کے نئے نئے پہاڑ ٹوٹتے ہیں۔ دوسری طرف حرم نبوت کی خواتین ہیں۔ رسول اللہۖ کی بیٹیاں ہیں سوگوار مائیں اور آشفتہ حلال ہیں۔ ان میں وہ بھی ہیں جن کی گودیں خالی ہوچکیں جن کے سینے سے اولاد کا جدا ہونے کا زخم بھی رہا ہے جن کی گود سے شیر خوار بچہ بھی چھین لیا گیا اور جن کے بھائیوں، بھتیجوں اور بھانجوں کی بے گوروکفن لاشیں سامنے پڑی ہوئی ہیں۔ روتے روتے آنکھوں کا چشمہ سوکھ گیا ہے۔ تن نیم جان میں اب تڑپنے کی سکت باقی نہیں رہی ،عورت ذات کے دل کا آنگینہ یونہی نازک ہوتا ہے۔ ذرا سی ٹھیس جو برداشت نہیں کرسکتا۔ آخر اس پر پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں۔ سب کے سب جام شہادت نوش کرچکے اب تنہا ایک ابن حیدر کی ذات باقی رہ گئی ہے جو لٹے ہوئے قاضے کی آخری امیدگاہ ہے اور وہ بھی سفر باندھنے کو تیار کھڑے ہیں خیمے میں ایک کہرام برپا ہے کبھی بہن کو تسکین دیتے ہیں کبھی شہر بانو کو تلقین کرتے ہیں کبھی لخت جگر بیمار مابد کو گلے لگاتے ہیں اور کبھی کمسن بہنوں کو اور لاڈلی شہزادیوں کو پاس بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں امید وہم کی کشمکش ہے فرض کا تصادم ہے خون کا رشتہ دامن کھینچتا ہے جبکہ ایمان مقتل کی طرف لے جانا چاہتا ہے کبھی یہ خیال آتا ہے کہ ہمارے بعد اہل خیمہ کا کیا حال ہوگا پردیس میں حرم کے یتیموں اور بیوائوں کے ساتھ دشمن کیا سلوک کریں گے دوسری طرف شوق شہادت بھی دامن گیر ہے۔ ملت کی تطہیر اور حمایت حق کا فرض نیزوں پر چڑھ کر آواز دے رہا ہے۔ بالآخر اہل بیت کے ناخدا، کعبہ کے پاسبان، نانا جان کی شریعت کے محافظ، حضرت امام رضی اللہ عنہ بھی اب سر پر کفن باندھ کر ان میں جانے کے لئے تیار ہوگئے۔ اہل حرم کو تڑپتا، بلکتا اور سسکتا چھوڑ کر حضرت امام خیمہ سے باہر نکلے اور لشکر اعداد کے سامنے کھڑے ہوگئے۔
اب ذرہ سا ٹھہر جائیے! اور آنکھیں بند کرکے منظر کا جائزہ لیجئے! ساری داستا میں یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کا کلیجہ شق ہونے لگتا ہے۔ بلکہ پتھروں کا جگر بھی پانی ہو کر بہنے لگتا ہے دشمنوں کی خونریز یلغار چاروں طرف سے بڑھتی چلی آرہی ہے۔دروازے پر اہل بیت کی مستورات اشکبار آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہی ہیں کیونکہ تین دن کا ایک بھوکا پیاسا مسافر بائیس ہزار تلواروں کے نرغے میں ہے۔ لمحہ لمحہ منٹ پر دردوغم کے اتھاہ ساگر میں دلی ڈوبتا جارہا ہے کبھی منہ سے چیخ نکلتی ہے کبھی آنکھیں جھپک جاتی ہیں کیا عجیب ہے؟ تسلیم و رضا کی وادی بسے ایاں، پھولوں کی پنکھڑی پہ قدم رکھنے والی شہزادیاں آج انگاروں پر لوٹ رہی ہیں جن کے اشارہ ابرو سے ڈوبا ہوا سورج پلٹ آتا ہے آج انہیں کے ارمانوں کا سفینہ سامنے ڈوب رہا ہے اور زبان نہیں کھلتی۔ دیکھنے والی آنکھیں اپنے میر کشور کو، اپنے مرکز امید کو اپنے پیارے حسین رضی اللہ عنہ کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں کہ ایک نشانے پر ہزاروں تیر چلے، تلواریں بے نیام ہوئیں نیزوں کی آنی چمکی اور دیکھتے ہی دیکھتے حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنھا کا چاند، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دل کا چین، رسول اللہۖ کا پیارا نواسہ گہن میں آگیا زخموں سے چور، خون میں شرابور سیدہ کار اجدو لارا جسے ہی فرش پر تشریف لایا کائنات کا سینہ دہل گیا کعبے کی دیواریں ہل گئیں۔ چشم فلک نے خون برسایا، خورشید نے شرم سے منہ ڈھانپ لیا اور گیتی کی ساری فضا غم واندوز سے بھر گئی ادھر ارواح طبیعت اور ملائکہ رحمت کے جلوس میں جب شہید اعظم کی مقدس روح عالم بالا میں پہنچی تو ہر طرف ابن حیدر کی امامت دیکتائی کا غلغلہ بلند ہو رہا تھا ادھر خیمے سے ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی صبروشکیب کا خرمن جل رہا تھا یتیموں، بیوائوں اور سوگواروں کی آوہ فغان سے دھرتی کا کلیجہ پھٹ گیا۔ یہ غم واندو سب شریعت مطھرہ میں رہ کر تھا۔ نہ گریبان چاک کئے نہ ماتم کیا اور نہ بے پردگی ہونے دی۔ صبر ورضا کا دامن تھام کر رکھا اور نانا جانۖ کے احکامات کو ملحوظ رکھ کر عمل بھی کیا۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here