عزت!!!

0
48
عامر بیگ

امریکہ جیسے مادر پدر آزاد معاشرے میں بھی ان کے تعلیمی اداروں میں جنسی زیادتی کے لا تعداد کیسز ہوتے ہیں جن میں سے اسی فیصد رپورٹ ہی نہیں ہوتے دیگر وجوہات میں ہمارے ہاں کی مشرقی طرز کی عزت کی پاسداری شامل ہو گی پاکستان میں بھی ایسے کیسز آئے دن دیکھنے کو ملتے ہیں، گومل یونیورسٹی کا پروفیسر ہو یا کسی مدرسے کا مولوی یا محلے کااوباش آوارہ گرد۔میرے آبائی گھر سے نزدیک ایک کینٹ ایریا میں دوستوں میں ایک خبر زبان زد عام ہو گئی تھی کہ مشقوں پر گئے ہوئے جوان نزدیکی گائوں میں باہر بیٹھنے آئی ایک لڑکی سے زبردستی کرتے رہے یہاں تک کہ اسکی موت واقع ہو گئی مگر جوانوں نے ہمت نہیں ہاری لگے رہے ،مری ہوئی سے بھی ہوس پوری کرتے رہے ،خبر کا ماخذ ہائی رینک افسر کی بیٹی تھی جس نے گھر میں سے سنی ہوئی بات اپنے بوائے فرینڈ تک پہنچائی اور اس نے ہم سب کو افسوس کرنے کا موقع فراہم کیا مگر بعد میں خبرسختی سے دبا دی گئی ان دنوں سکول کالجوں کے بچے ایسی خبروں کے متلاشی رہتے اور حظ اٹھاتے کیونکہ یہی انکا بیسٹ پاسنگ ٹائم ہوا کرتا تھا مگر اب نئے نئے طریقے ایجاد ہو چکے۔ آپکو شاید یاد ہوگا کہ نوے کی دہائی کے اوائل میں پنجاب یونیورسٹی لاہور میں عورتوں کے ہاسٹل میں پولیس ریڈ ہوا تھا اور وہاں سے جو سامان ملا تھا کہ اللہ کی امان ہے۔اسی طرح سر گنگا رام ہسپتال لاہور میں نرسز کا سکینڈل خبریں کے کرتا دھرتا نے اس لئے چھاپا کہ اسے مال کی سپلائی بروقت نہیں ہو پائی۔ وارث روڈ پر واقع فورسز کے دفاتر اور انکے بی او کیوزمیں اسی روڈ پر موجود ایک بریسٹیجیس کالج کے لیڈیز ہوسٹل سے لڑکیاں آفیسرز کی طبع سازی کے لیے جاتی تھیں۔ پاس ہی صفاں والا چوک سے متصل روڈ پر واقع لاتعداد صفیہ کلینکس میں مناسب نرخوں پر اندرونی صفائی کابھی اعلیٰ انتظام ہمہ وقت موجود رہتا تھا ضروت مند دور دراز سے آکر بھی مستفید ہوتے تھے اور اب بھی یہ سب چلتا ہے۔ دھندہ ہے پر گندہ ہے۔ پاکستان کے اکثر شہروں کے گلی محلوں اور خاص کر کراچی میں کھلے بیوٹی پارلرز سے بھی سپلائی اور پیٹ پوجا کا خاطر خواہ بندوبست رہتا ہے ایک وقت تھا لوگ کہتے تھاکہ اعظم بستی اعظم بستی،آٹا مہنگا اور عزت سستی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالخلافہ اسلام آباد میں دنیا کی مختلف زبانیں بولنے والی مخلوق دنیا کے سب سے پرانے دھندے کے لیے دستیاب ہے ملتان ریجن کے بعض سنڈی مار بزنس مین اپنے خاص فنکشنز میں ملتانی آم کی سپلائی کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ وہ پلپلے نہیں ہوتے۔اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں بڑے پیمانے پرجنسی حراسگی کے حالیہ واقعے کی ایف آئی آر اور دستیاب معلومات سے آگاہی ملتی ہے کہ یہ دھندہ بھی کئی سالوں سے چل رہا تھا نمبروں کا لالچ یا جنسی طور پر حراساں کرنے والے متعدد واقعات کہ جنکی ویڈیو بھی تیار کی جاتی تاکہ بلیک میل کر کے مزید فوائد حاصل کئے جا سکیں یہ سب ہائی رینکس کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہے، منشیات کا استعمال اور پھر عادی افراد اس گینگ کا حصہ ہیں حیرت ہے ایسی ویڈیوز پہلے رپورٹ کیوں نہیں ہوئیں۔ سیدھی بات کہ اگر ہوتیں بھی ہیں تو دبا دی جاتی ہوں گی اور ویسے بھی اب تو یہ سب عام سی بات بن چکی ہے، ٹک ٹاک اور ریل کے دور میں یہ کوئی انہونی تو ہے نہیں۔ یہ سب ایسے نہیں چلے گا ہمیں اپنی نئی نسل کو ایجوکیٹ کرنا ہوگا یہ سب چھپ چھپاکر ہماری ناک کے عین نیچے نہیں چل سکتا ،والدین کو اپنے بچوں کو خود ہی سمجھانا ہوگا اور ان پر نظر بھی رکھنی پڑے گی حکومت کو سٹیپ لینا ہوگا ذمہ داروں کو سخت سزا اور عوام کے لیے جلدی شادی کے ساتھ وظیفہ کا قانون بھی پاس کریں تاکہ دین دنیا اور عزت کی حفاظت ممکن ہو سکے تعلیمی اداروں میں حراسمنٹ رپورٹنگ سیلز بنائے جائیں سب کو مل جل کر کام کرنا ہوگا اور اس کے لیے مناسب اور موزوں تشہیر بھی کرنا ہوگی چپ رہے اور عزت بچانے کی بجائے آواز اٹھانی ہوگی تاکہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کی عزت محفوظ رہ سکے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here