قیام پاکستان سے آج تک کشمیر پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے حساس حیثیت رکھتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان 2بڑی اور 2چھوٹی جنگیں ہو چکی ہیں ، کشمیر کی ہی وجہ سے آج بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ کی سی صورت حال ہے ، دونوں ممالک کے عوام انتہائی غربت کا شکار ہیں جبکہ اس کے باوجود دونوںممالک کی حکومتیں دفاع اور افواج پر بے انتہا پیسہ خرچ کررہی ہیں ، کشمیر خواہ پاکستان میں ہو یا بھارت میں جب بھی وہاں الیکشن ہوتے ہیں تو عوام میں ایک اُمید کی کرن نظر آتی ہے کہ شاید کسی دن ان کے مستقبل کا بھی کوئی روشن پہلو اُجاگر ہو لیکن بدقسمتی سے ایسا کچھ نظر نہیں آیا ابھی تک ۔ مسلم لیگ ن کی مریم نواز اور پیپلزپارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے انتخابات سے قبل بڑے بڑے جلسے کیے اور اس دوران دونوں لیڈروں کی جانب سے بڑے بڑے دعوے بھی کیے گئے لیکن نواز شریف کی افغان سیکیورٹی مشیر حمداللہ محب سے ایک ملاقات نے کشمیری عوام کی پوری سوچ کو بدل دیا ، اس ملاقات کو پی ٹی آئی کی حکومت نے خوب منفی انداز میں الیکشن سے قبل اُچھالا جس سے نواز حکومت کی پاکستان مخالف ، کشمیر مخالف اور انڈین لابی کے لوگوں کی نواز شریف سے ملاقات سے بہت منفی تاثر ملا جس سے کشمیری عوام نے اپنی سوچ کو بدلتے ہوئے ملک سے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا ، اس ایک ملاقات جوکہ غلط وقت میں ہوئی نے کشمیر کا نقشہ بدل دیا ، کشمیریوں نے پاکستان دشمن حمد اللہ محب اور نواز شریف کی ملاقات کو شدید نا پسند کیا کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ کشمیریوں کی خاطر اگر کسی ملک کی عوام نے اپنی جانوں تک کی قربانی دی ہے تو وہ صرف پاکستانی عوام ہے، آج کے الیکشن میں کشمیریوں نے پاکستان سے اپنی محبت کا ثبوت دے دیا ، یا د رہے کہ نوا زشریف کا خاندان کشمیری ہے کیونکہ وہ کشمیر سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے لیکن نواز فیملی نے اپنے اقتدار کی خاطر پاکستان دشمن کو گلے لگا لیا جس پر ناصرف پورے پاکستان میں شدید غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی بلکہ کشمیریوں نے بھی نواز فیملی سے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار ان کے خلاف ووٹ کی طاقت استعمال کر کے دیا ،یہی وجہ ہے کہ آج پورے کشمیر میں پی ٹی آئی کے پرچم لہراتے نظر آتے ہیں ، دیکھا جائے تو ہم سب کو پہلے پاکستان کی فکر کرنی چاہئے ، لیڈر تو آتے جاتے ہیں لیکن کچھ لیڈران ایسے بھی ہیں جنھوں نے اپنے اقتدار کی خاطر ملک کو بھی دائو پر لگا دیا ہے ، یہی حال ان کے پارٹی ورکروں کا بھی ہے ، ہمیں پاکستان سے وفاداری کو اول اہمیت دینا ضرروری ہے ، لیڈر تو آتے جاتے رہتے ہیں ، آج ان لیڈران سے کوئی پوچھے کہ آیا ان کی پہچان کس ملک نے کرائی ، پاکستان ہے تو ہم ہیں ورنہ مقبوضہ کشمیر کی عوام سے کوئی جا کر پوچھے کہ آزادی کتنی بڑی نعمت ہے۔
رہی بات انتخابات کے دوران عوام کے دل جیتنے کی تو اب دعوووں اور وعدوں کا وقت گزر چکا ہے ، سیاستدانوں اور حکمرانوں کو عوام کے دلوںمیں گھر کرنے کے لیے کھوکھلے نعروں کی بجائے عملی اقدامات کرنا ہوں گے ، ایک عام آدمی کو ملک کے عالمی تعلقات اور خارجہ پالیسی کی بجائے اپنے ذاتی مسائل سے زیادہ دلچسپی ہے اگر کوئی حکمران ، سیاستدان یا لیڈر عام لوگوں کے مسائل کو حل کرتا ہے تو لوگ لازمی طو رپر اس کی حمایت میں ووٹ دیں گے اور اپنی وفاداری کا ثبوت دیں گے ۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی سوچ میں تبدیلی لے کر آئیں ، اب عام آدمی کے مسائل اس کی دہلیز پر حل ہوں گے تو پھر ہی وہ ووٹ کی طاقت سے اپنا فیصلہ کرپائے گا ۔کشمیریوں نے ہمیشہ پاکستان سے اپنی محبت اور لگن کا اظہار کیا ہے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے عوام گولیوں اور موت کے سائے تلے بھی پاکستان کے پرچم اٹھائے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں اور مقبوضہ کشمیر کی فضا” کشمیر بنے گا پاکستان ”کے نعروں سے گونج اٹھتی ہے کیونکہ پاکستانی عوام کے دل بھی اپنے کشمیریوں بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں ۔کشمیری جانتے ہیں کہ عالمی سطح پر ان کی سفارتی ، اخلاقی حمایت کرنے والا پاکستان سے بڑھ کر اور کوئی ملک نہیں ہے ، وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کے فورم پر جس طرح مسئلہ کشمیر کو اُجاگر کیا وہ اپنی مثال آپ ہے ، کشمیری اس بات کو باخوبی جانتے ہیں کہ موجودہ حکومت بھی مسئلہ کشمیر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرانے کے لیے کوشاں ہے ، میں دعا گو ہوں کہ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہواور کشمیریوں کو ان کا جائز حق ملے ۔