بچپن سے ایک کہانی تسلسل سے پڑھتے آرہے ہیں وہ ہے”بوتل کا جن” یہ طلسمی کہانی ایک سے زائد ممالک اور مختلف زبانوں میں بھی عام طور پر پڑھی اور پڑھائی جاتی رہی ہیں لیکن بدقسمتی سے اب یہ ہمارے ملک کی سیاسی تاریخ کا بھی حصہ بنتی جارہی ہے۔ یہ کہانی کچھ اس طرح سے تھی کہ کسی شخص کو پانی میں تیرتی ہوئی ایک بوتل ملی جوکہ ایک ڈھکن سے بند تھی اس شخص نے تجسس میں اس ڈھکن کو کھولنے کی کوشش کی ڈھکن کافی پرانا تھا بمشکل تمام کھلا تو جیسے ہی ڈھکن کھلا اس بوتل میں سے دھواں نکلا آخر اس دھویں نے ایک چھوٹے سے بادل کی شکل اختیار کی ڈھکن کھولنے والا شخص گھبرایا کہ یہ کیا مصیبت اپنے لئے پیدا کرلی۔ چند کچھ ہی لمحموں نے اسی دھویں نے ایک ہیولے کی شکل اختیار کرلی اور آخرکار اس میں سے ایک دیو نما جن نکل آیا اور اس نے بڑے ادب سے کہا کیا حکم ہے آقا ،پہلے تو وہ شخص ادھر ادھر دیکھنے لگا لیکن جب آس پاس کسی کی موجودگی نہیں پائی تو ہمت کرکے جن سے مخاطب ہوا کہ جن بھائی آپ آقا کسے کہہ رہے ہیں۔ جن بولا آپ ہی تو ہیں میرے آقا جنہوں نے اس بوتل میں سے مجھے آزاد کیا ہے۔ اس طرح وہ آقا اپنی مختلف آخر ماشیں جن کے ذریعے پوری کرتا رہا لیکن وقت گزرتا گیا اور آقا کی خواہشیں ختم ہوتی گئیں لیکن جن کہنے لگا اب آپ مجھے بتائیں کہ میں آپ کے لئے کیا کرسکتا ہوں۔ آقا(وہ شخص جس نے بوتل سے جن کو نکالا تھا) وہ بھی اکتا گیا اور اس نے سوچا کہ اب اسے واپس بوتل میں کیسے ڈالا جائے۔ اسے کچھ سمجھ نہ آئی تو اس نے جن سے یہ فرمائش کردی کہ جن میرا حکم ہے کہ اب واپس تم بوتل میں چلے جائو۔ جن جسے اتنے سالوں کی قید سے بمشکل رہائی ملی تھی۔ سمجھ گیا کہ آقا اب مجھ سے تنگ آکر جان چھڑانہ کے چکر میں ہے اس نے کہا کہ آقا یہ حکم نہیں مان سکتا اس کے علاوہ کوئی حکم کریں تو میں حاضر ہوں۔ بدقسمتی سے یہی کچھ المیہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کا بھی ہے کہ وہ مختلف اوقات میں سیاسی جماعتوں کی ہٹ دھرمی سے تنگ آکر بوتل سے جن نکالتی ہیں وہ جن اول اول نو نہایت فرمانبرداری کا مظاہرہ کرتا ہے جیسے ہی اس پیر ججمتے ہیں وہی فرمانبرداری پھر ہٹ دھرمی میں پیدا ہوتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اس سیاسی رہنما یا جھتے کو خوب لاڈ سے پالتی پوستی ہے۔ ان کی اخراجات بھی اپنے ذمے لیتی ہے۔ پھر وہ سیاسی رہنما بیجا لاڈ پیار سے بگڑ جاتا ہے نافرمانی آہستہ آہستہ اسکی طاقت پہنچاتی ہے تب تک اسے اسٹیبلشمنٹ کی کمزوریوں سے بھی آگاہی ہوجاتی ہے۔ اور پھر وہ کسی طرح سے انہیں بلیک میل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ماضی قریب میں اس کی ایک بڑی مثال متحدہ کے قائد الطاف حسین کی صورت میں ہم سب کو یاد ہوگی پھر آفاق اور عامر خان کی شکل میں متحدہ کو دو ٹیکے لگائے گئے تھے اور مرحوم جام صادق کی مدد سے الطاف حسین کو ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کردیا گیا۔ متحدہ کا وجود جنرل ضیا کے مرہون منت سامنے آیا۔ کیونکہ اس طرح جنرل ضیا پیپلزپارٹی کو سندھ کے شہروں سے نکالنے اور اس سیاسی جماعت کو کمزور کرنے کی کوشش تھی۔ یہ وہ دور تھا کہ کراچی میں جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی شہر کی مقبول سیاسی جماعتیں تھیں لیکن افغانستان پر روسی قبضہ کر بعد افغانستان میں مجھا دین کو امریکی حمایت سے روس کیخلاف استعمال کیا جارہا تھا۔ جماعت اسلامی اسوقت مجاہدین کے ساتھ شیانہ شبانہ روس کیخلاف نبزد آزما تھی۔ ترقی پسند جماعتیں بھی تنزلی کا شکار تھیں ایسے میں پی پی پی کو کمزور کرنے کیلئے لسانی بنیادوں پر اردو بولنے والوں کی ایک جماعت کو سامنے لایا گیا حالانکہ دیکھا جائے تو این ڈی خان، امیر حیدر کاظمی، معراج محمد خان اور میسرور احسن پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما تصور کئے جاتے تھے لیکن1970ء میں ہونے والے لسانی تصادم کو آگے لا کر پہلے کراچی یونیورسٹی میںAPMSOبنانی گئی اور پھر رئیس امروہی کے سائے تلے متحدہ مساجد ترحریک کو تشکیل دیا گیا ہے۔1983ء میں پہلی بار پروان چڑھ کر جوان ہوئی تھی۔ اسی طرح جنرل ضیا کے دور میں زکواة کے مسئلے پر شیعہ متحدہ تنظیم نے ایک لاکھ لوگ جب اسلام آباد میں اکٹھے کئے تو جنرل ضیا نے سپاہ صحابہ کو بنانے کا بیڑہ جھنگوی کو سونپا آج عمران خان جسکو مسلم لیگ(ن) کے مقابلے کیلئے اسٹیبلشمنٹ نے بوتل سے نکالا تھا آج انکے لئے چ گیویرہ بن گیا۔اب ایک چھپکلی سے خوفزدہ آرمی ساری عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو دھمکیاں دے رہا ہے بلیک میل کر رہا ہے۔ حیرت ہے کہ یہ شخص جسکی آڈیو، وڈیوز اور کیا کیا گند ہوتے ہوئے بھی سارے ملک کے طاقتور اداروں کو بے بس کرکے بیٹھا ہوا ہے۔ جسے کسی تھانے کے چھوٹے سے سیل میں چند چھپکلیوں کے ساتھ بند کردیا جائے تو تھانے سے میلوں دور اس کی چیخیں سارے اس کے یوتھیے سن کر کانوں میں انگلیاں دیتے رہ جائیں گے۔ لیکن پھر بھی ایوب خان کے دور کا محمد خان ڈاکو بنا بیٹھا ہے۔ سندھ اور بلوچستان کی بہترین قیادت کو اس طرح قتل کردیا گیا جیسے وہ کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے تھے کیونکہ وہ اقلیتی صوبوں کی یتیم عوام کی قیادت تھی؟ ذوالفقار علی بھٹو اور اکبر بگٹی جیسے دلیر لیڈروں کا قتل رائیگان نہیں جائیگا۔ عمران خان تو ایک چھوٹا سے ٹکر ہے فلم چلنا ابھی باقی ہے۔
٭٭٭٭