سیاسی منافقین!!!

0
114
شبیر گُل

اللہ رب العزت نے کائنات کی تخلیق حضرت انسان کے لئے فرمائی۔سورج ،چاند، ستاروں اور زمین وآسمان کا جال بچھایا۔ہر چیز اللہ کے حکم کے تابع۔ اور محورسے نکلنے کی اجازت اور تجاوز نہیں۔انسان کواشرف المخلوقات بنایا گیا۔ اسکی آسائش کے لئے خوبصورت کائنات بنائی گئی۔انوع قسم کی اجناس اورسواری میسر کی گئی۔زرہ زرہ کو اسکے تابع کیا گیا۔ زندگی گزارنے کے لئے قانون و آئین تجویز کیا۔انسان کی فطرت جبلت میں ہے کہ وہ ناشکرا گزرا ہے۔ اللہ بارک نے قرآن میں بار بار شکر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ انسان ان نعمتوں پر شکر ادا نہیں کرتا۔لوٹ کھسوٹ کے طریقے ایجاد کرتا ہے۔ دوسروں کا حق چھیننا اپنا فرض سمجھتا ہے۔ جتنا بڑا منصب اور عہدہ ہو اتنی بڑی ذمہ داری بھی ہو ا کرتی ہے۔ ہم اکثر ان عہدوں کو کرپشن، چوری۔ اور ظلم کے لئے استعمال کرتے کرتے ہیں۔ جس سے معاشرتی بگاڑ ،فتنہ اور فساد جنم لیتا ہے۔ مملکت خداداد کلمے کی بنیاد اور بے انتہا قربانیوں کے بعد وجود میں آئی۔لیکن پچہتر سال کلمہ کی حرمت کو پامال کیا گیا۔مغربی تہذیب کواوڑھنا بچہو نا بنایاگیا۔آئین پاکستان سے روگردانی کی۔ طاقت کے نشہ میں ظلم وستم کیاگیا۔مستنصر حسین تاڑڑ لکھتے ہیں کہ پہلے کبھی نمرود۔ ۔!! پھر فرعون تھا۔ ۔!! اور پھر یزید تھا۔ اور ہم ایسے دور میں پیدا ہو ئے ہیں۔ جہاں سبھی ایک وقت میں موجودہیں۔ جمہوریت کا راگ آلاپنے والی سیاسی جماعتیں،ان کی لیڈرشپ اور پارٹی منشور ،منافقت سے بھرا پڑا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت پر نظر ڈالی جائے تو جماعت اسلامی کے علاوہ کسی سیاسی اور مذہبی جماعت میں پارٹی الیکشن کا انعقاد نہیں کیا جاتا۔سیاسی قیادتیں پارٹی الیکشن کو پسند نہیں کرتیں۔اسی لئے نوازشریف۔زرداری۔فضل الرحمن اور عمران خان کے بعد کوئی لیڈرشپ نہیں۔انکی یہی سوچ انہیں گیٹ نمبر چار کے گرد چکر پر مجبور کرتی ہے۔ یا پھریورپ اور امریکہ کیطرف دیکھتے ہیں۔ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا ھے کہ خبر یہ ھے کہ امریکہ نے پاکستان کو روس سے تیل خریدنے کی اجازت دے دی۔ کیا ہم امریکہ کے غلام ہیں جو اس کی اجازت کے بغیر فیصلے نہیں کرسکتے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کہتے تھے کہ ہمیں وہ اسلام نہئں چاہئے جو بوقت نکاح خطبہ۔ بوقت نزع یسین پڑھنے کے کام آئے اور باقی معاملات زندگی میں یورپ کے دسترخوان کی چہو ڑی ہو ئی ہڈیوں پر گزارا کرے۔آج مہنگائی سے تنگ لوگ خودکشیوں پرمجبورہیں۔ سیاسی افراتفری سے تنگ ہیں۔ عوام اور فوج آمنے سامنے ہے۔ جنرل باجوہ اور عمران خان نے فوج کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ جسے دوبارہ بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان،نواز شریف،شہباز شریف، آصف زرداری اور فضل الرحمن منافق لیڈرہیں۔ جو اقتدار کے لئے فوجی چھتری کے مزے لیتے ہیں۔ چھتری ہٹنے پر اسی فوج کو گالیاں بکتیہیں۔ ایم کیو ایم تو شروع دن سے فوج کی کتیا کا کردار ادا کرتی آرہی ہے۔ جسے فوجی اسٹبلشمنٹ ترازو کا ایک پلڑا تصورسمجھتی ہے۔ اب فضل الرحمن اسی ترازو میں بیٹھا ہے۔ بینظر کا کہنا تھا کہ اگر فضل الرحمن اقتدار میں نہ ہو ں تو خونخوار بھیڑیئے بن جاتے ہیں۔ میرا ماننا ھے کہ یہ اقتدار میں ہو ں یا اقتدار سے باہر ، یہ خونخوار بھیڑیئے ہی رہیں گے۔ ان میں سے کوئی ایک نہیں جو عوامی مسائل پر بات کرتا ہو۔ اقتدار کے بہو کوں کا ٹولہ ہے۔ اقتدار انکا کاروبار ہے۔ یہ بلیک میلروں کے ٹولے ہیں۔ پہلیسعودی عرب اور اب انگلینڈ بھاگنے والے،کیس ختم کروانے اور سفارتی پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد بہی پاکستان نہیں آرہے۔ یہ قبضہ مافیا معاشی بربادی کا ذمہ دارہے۔ فوج کے پالتو،بلوچی لیڈر اور ایم کیو ایم کی قیادت تاریخ کا وہ گندہ باب ہے۔ جس کی ہر صفحے پر فوجیوں کی بوٹ پالشی لکھا ہے۔ کبھی نواز کبھی زرداری۔ کبھی شہباز اور کبھی عمران۔بوٹ وہی ھے پالشیے اور مالشئیے تبدیل ہوئے ہیں۔ چوہدری مونس الہی نے فوجی مداخلت کا راز افشا کرکے پی ٹی آئی کے منہ پر تمانچہ رسید کیا ہے۔ عمران خان فوج پر تنقید سے پہلے دائیں بائیں،پرویز الہی،شیخ رشید ،اسد عمر اور وائس چئیرمین قریشی کون ہیں خفیظ شیخ کون تہے۔ یہ سبہی اسٹبلشمنٹ کے افرادہیں۔ اور جن کو جنرل فیض نے پی ٹی آئی میں شامل کروایا کیا پی ٹی آئی انہیں فارغ کرئے گی۔ اسٹبلشمنٹ کے ذریعے ترین کے جہاز میں بھر بھرکر لوگوں کو لایا گیا۔(اسے وکٹ گرانا کہا گیا) پھر جہانگیر ترین اور علیم خان کے ساتھ کیا ہو ا۔2018 کے الیکشن میں ٹکٹوں کی تقسیم آئی ایس آئی کے ذریعے ہو ئی۔ آج پلاننگ کے ساتھ فوج کو گندہ کیا جارہاہے۔ یہ کھیل ختم ہو نا چاہئے۔ مٹھا مٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تہو تہو۔ نہیں ہو نا چاہئے۔ جنرل باجوہ کیطرف سے عمران خان کو جہو ٹا اور احسان فراموش کہا گیا ہے۔ مونس الہی کا کہنا کہ جنرل باجوہ انہیں پی ٹی آئی کی حمایت کا کہتے تہے۔ لیکن سوال یہ ھے کہ کیا جنرل باجوہ سے پی ڈی ایم والیبہی ملاقاتیں کرتے تہے۔ یعنی جنرل باجوہ ایک اور ایکسٹنشن کے لئے وکٹ کے دونوں طرف کھیل رھے تہے۔ ؟اتنے بڑے عہدے پر منافقت اور دو نمبری ذیب نہیں دیتی۔ جنرل باجوہ یا فوجی اسٹبلشمنٹ جب تک عمران خان کو سپورٹ کرتی تہی۔ وہ تو قابل قبول تہی مگر جب انہوں نے اپنا رخ پی ڈی ایم کیطرف کیا۔ تو پی ٹی آئی کو ہضم نہیں ہو رہا بہر حال آدہی رات کو عدالتوں کا کھلنا ایک سوال ہے جس کا جواب شائد نہ مل سکے۔جب سے رجیم چینج ہو ا ہے۔ بارہ بلین ڈالرز کے ریزروز کا نقصان ہو ا ہے۔ سات ارب کے ریزروز ہیں۔ تین بلین سعودی عرب کے ہیں۔ اگر نیٹ ریزروز نکالیں جائیں۔ تو ہمارے پاس صفر ریزروز رہ جاتے ہیں۔ فارن ائیرلائنز کے واجبات ہیں۔ جیسے ٹرکش ائیرلائن کے چالیس ملین ڈالرز واجبات ہیں۔ امارات ائیرلائن اور دوسری ائیرلائنز کے واجبات بھی ریزروہیں۔ دفاعی کنٹریکٹ کی LC کے لئے بھی مشکلات کا شکارہیں۔ وزیراعظم اور وزرا کے دورے ختم نہیں ہو رہے۔ اوورسیز کیطرف سے ہنڈی اور حوالہ کے ذریعے پیسے بھیجے جارہے ہیں۔ ہمارے پاس چار سے پانچ ہفتوں کے ذخائر رہ گئے ہیں۔ آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ انتقامی کاروائی کررہے ہیں اور اسحاق ڈار اسکے پیادے ہیں۔ اسحاق ڈار اور مفتاح اسماعیل معیشت کی ناکامی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔ شہباز شریف مضبوط الحواس ہو چکے ہیں۔ وزیراعظم آزاد کشمیر سے توں تکرار نے ان لیڈروں کی اخلاقیات کو عیاں کردیا۔پی ڈی ایم Level playing fieldکے لئے عمران خان کو نااہل کیا جاسکتا ہے۔ اگر ایسا ہو ا تو پی ٹی آئی کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ حامد میر اور نجم سیٹھی کے بیانات سے محسوس ہو تا ہے کہ خزانہ خالی ہو نے سے لفافوں کی تقسیم رک چکی ہے۔ صحافت عمران خان کی حمایت اور پی ڈی ایم کی لفافت میں ہچکولے کھا رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن میں گالیوں،دھمکیوں اور کیسوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ایف آئی اے اور پولیس کے کیسوں سے بچنے کے لئے پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کے لئے پنجاب اور خیبر پختونخواہ پناہ گائیںہیں۔ اگر عمران خان دو اسمبلیاں سے استعفی دیتے ہیں تو پکڑ دھکڑ کی سیاست ایک مرتبہ پھر زور پکڑے گی۔عمران خان کے پنجاب میں ڈیرے ممکنہ گرفتاری سے بچنے کے لئے ہے۔ پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی تذبذب میں ہیں۔ چوہدری پرویز الہء بادل نخواستہ کپتان کو ہاں کردی ہے۔ کپتان اسمبلی توڑے کی دھمکیاں اور کبہی مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔ اپوزیشن مخمصے کا شکار ہے۔ انکے سر پر شفقت بھرا ہاتھ نہئں رہا۔ عمران خان نے پی ڈی ایم کو مذاکرات کی پیش کش کردی۔عمران خان جس قوت کیطرف آس لگائے بیٹھے تہے۔ وہاں سے مایوسی کے علاوہ کچھ حاصل نہئں ہو سکا۔ چند دنوں سے عمران خان کا غصہ جھاگ کیطرح بیٹھ رہا ہے۔ پی ٹی آئی موجودہ حکومت پر الیکشن کے لئے دبا ڈال رہی ہے۔ اور موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ الیکشن اپنے وقت پر اکتوبر 2023 میں ہو نگے۔ دونوں طرف گرم بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ اور اسٹبلشمنٹ سے رابطے کی کوششیں بہی جاریہیں۔ پی ٹی آئی کے لئے ہر کام جائز اور اس کے لئے تاویلیں گھڑی جاتی ہیں یہی کام دوسری جماعتیں کریں تو ان پر شور کیوں۔ اقتدار کی جنگ میں سبہی اندھے ہو چکے ہیں۔ عوام کو بے آسرا چہو ڑ دیا گیا ہے۔ بیک ڈور اسٹبلشمنٹ سے رابطے،چور دروازوں سے اقتدار کاحصول ملکی سلامتی کے لئے خطرناک ہے۔ اس کے نتائج کبھی اچھے برآمد نہیں ہو سکے۔ چوروں اور ٹھگوں سے پارٹیوں کو جان چھڑانی چاہئے۔ اسکا واحد حل پارٹی الیکشنزہیں۔ الیکشن کمیشن کو تمام سیاسی پارٹیوں کے اندر الیکشن کرانے کا پابند کرنا چاہئے۔ تاکہ پارٹیوں سے پرانے گدھ،اجرتی قاتل اور کریمنل۔ مائینڈسٹ کا خاتمہ ہو سکے۔ میرا ماننا ھے کہ الیکشن اکتوبر میں ہی منعقد ہو نے چاہیں۔ الیکشن رفارمز۔ پاکستان میں نئی ووٹنگ لسٹیں،خصوصا کراچی میں ووٹرز کا اندراج۔جعلی ووٹ بنانے یا جعلی ووٹ لسٹ میں ملوث افراد کے لئے کم از کم پانچ سال قید بامشقت کی سزا کا تعین ہو نا ضروری ہے۔ ہارس ٹریڈنگ، ووٹوں کی خرید و فروحت۔ فلور کراسنگ پر متفقہ طور پر آئینی تقاضے پورے کئے جائیں۔ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس میں فیصلے میرٹ کی بنیاد پر کئے جائیں۔وقتی فائدے اور بعد میں پچھتاوئے اور واویلا سے پہلے ہی ان پیچیدگیوں کا ادراک اور ازالہ کیا جائے۔ تاکہ الیکشن فئیر اینڈ فری منعقد ہو سکیں۔ جن لوگوں نے صوبائی ،قومی اسمبلی یا سینٹ میں حصہ لینا ہے۔ انکی اہلیت کو آئینی تقاضوں کے مطابق پرکھا جائے۔ تاکہ کوئی لٹیرا، بدمعاش اور طاقت کے نشے اور پیسے کے بل بوتے پر الیکشن نہ لڑ سکے۔الیکشن کمیشن میں غیر جانبدار افراد کو تعینات کیا جائے۔ جوآئین پاکستان کے وفادار ہو ں۔ پٹواری ،جیالے ،یوتھیے اور مذہبی کارکن شخصیت پرستی اور اندہی تقلید میں عوامی خدمت سے نابلدہیں۔ لہٰذا جماعت اسلامی کو چاہئے کہ وہ ہر گلی اور محلے کی سطح پر احتساب گروپ بنائیں۔ جو خدمت خلق کی طرز پر عوام کی فلاح و بہبود کا فریضہ سرانجام دے۔ کوئی آفیسر یا سیاسی ڈاکو۔ عوام کا احتساب نہ کرے جب تک وہ اپنے اثاثے عوام کے سامنے ڈکلئیر نہ کرئے۔جرنیلوں مذہبی رہنماں اور سیاسی لیڈروں کابے لاگ احتساب کیا جائے۔ انکے کرتوت عوام کے سامنے لائے جائیں۔ عوام کو معلوم ہو کہ انکی قیمتیں جائدادیں۔ قیمتیں پلازے۔ قیمتیں زمینیں کہاں سے آئیں۔ یہ غیر جمہوری ،فاشسٹ نظریات اور سوچ والی جماعتیں ہیں۔ جن کے اندر جمہوریت نہیں۔ پارٹی الیکشن نہیں ہو تے۔ اور یہ بدمعاش جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here