اپنے گزشتہ کالم میں ہم نے الیکشن کو کٹھ پُتلی تماشہ قرار دیتے ہوئے جن خدشات کا اظہار کیا تھا ان کی عملی صورت گزشتہ ہفتے اور اس کالم کے تحریر کیے جانے تک واضح طور سے سامنے آرہی ہے۔ کٹھ پتلیوں کی ڈور ہلانے والوں کے اشارے پر اسکروٹنی میں پی ٹی آئی کے 90 فیصد سے زائد کاغذات نامزدگی مسترد کئے جانے کیساتھ ایسے تمام امیدواروں کیساتھ بھی کاغذات نامزدگی مسترد کئے جانے کا عمل روا رکھا گیا جن سے فیصلہ ساز قوت اور ان کے ہرکاروں کو خوف تھا کہ اگر ان کو الیکشن میں حصہ لینے دیا گیا تو وہ نہ صرف جیت جائینگے بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے مطلوبہ مقاصد کی تکمیل کیلئے بھی سدِ راہ بن سکتے ہیں۔ کاغذات مسترد کئے جانے والوں کی طویل فہرست کو تنگیٔ دامن کالم کے سبب تحریر میں لانا ممکن نہیں تاہم چند اہم نام ایسے ہیں جن کی انتخابی اہمیت اظہر من الشمس ہے۔ عمران خان کیساتھ اس کے معتمد ساتھیوں علی محمد خان، اسد قیصر، شاہ محمود قریشی کا پورا خاندان کے علاوہ جی ڈی اے کی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا بمعہ شوہر و دونوں بیٹوں، عطاء اللہ مینگل، شیخ رشید اور اس کے بھتیجے سمیت بے شمار الیکٹیبل استرداد کا شکار ہوئے ہیں۔ بات اس حد تک ہی نہیں، انتظامیہ بالخصوص پولیس کی چیرہ دستیوں، گرفتاریوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ جمشید دستی کے گھر پر دھاوا، اس کی بیوی اور بچے کیساتھ زیادتی، خرم کھوسہ کی گرفتاری اور رہائی اور عمر ڈار کی گرفتاری تازہ ترین انتظامیہ و پولیس کی واردارداتیں ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارا کھیل سول ایڈمنسٹریشن یا پولیس اپنی مرضی سے کر رہی ہے یا اس کے پیچھے وہی پردہ نشین ہیں جنہیں عرف عام میں اسٹیبلشمنٹ یا ریاست کہتے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ نگران حکومتوں میں اتنا دم خم ہے کہ وہ اس قسم کے اقدامات کر کے آنے والے وقت کو اپنے لئے مشکل بنا لیں۔ ہمارا تجزیہ ہے کہ یہ کھیل ان قوتوں کے حکم پر ہی ہو رہا ہے جنہیں اپنے مقصد پورا کرنے کیلئے ہر صورت میں ایسے نتائج درکار ہیں جن میں اقتدار ایسے لوگوں کو دیا جائے جو ان کے اشاروں پر عمل کریں۔ گزشتہ دنوں پی ٹی آئی اور عمران خان کو عدالت عظمیٰ اور عالیہ عدالتوں سے جو ریلیف ملے ہیں یا محترم جسٹس صاحبان نے اپنی آراء دی ہیں ان پر نواز لیگ اور اس کے سوشل میڈیا اعلیٰ عدلیہ کیخلاف زہر افشانی کرنے میں مصروف ہیں۔ بعض مبصرین ن لیگ کے اس عمل و پروپیگنڈے کو لاڈلے اور اس کی جماعت کی گرتی ہوئی ساکھ کی بحالی کی کوشش قرار دے رہے ہیں لیکن ہماری سوچ یہ ہے کہ یہ پروپیگنڈہ دراصل ان کے ایماء پر کیا جا رہا ہے جو براہ راست عدلیہ سے ٹکرائو ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ لہٰذا یہ کام لاڈلے کے سپرد کر دیا گیا ہے۔ عدلیہ کے آزادانہ و منصفانہ کردار نے نواز لیگ کی صفوں میں تو مایوسی اور دراڑ کی صورتحال پیدا کی ہے۔ خود اسٹیبلشمنٹ کے لئے بھی پریشانی کا سبب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب بھی جمہوری حکومتوں یا جمہورت کو لپیٹا گیا تو اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ ایک پیج پر نظر آتے تھے۔ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ عدلیہ حقوق انسانی و آئینی اصولوں کو مقدم رکھتے ہوئے کارروائی کر رہی ہے۔ یہ تبدیلی مقتدروں کو ہضم ہوتی نظر نہیں آرہی ہے، خصوصاً عمران اور پی ٹی آئی کے حوالے سے مقتدرین کی فکر و پریشانی ایک کُھلا راز بنتا نظر آرہا ہے۔
انتخابی عمل کا جو نقشہ اس وقت نظر آرہا ہے، وہ ن لیگ کے حق میں مبینہ طور پر نہیں محسوس ہو سکتا لاہور میں شہباز شریف کے جلسے میں جو کچھ ہوا جس طرح عمران کے حق میں نعرے لگے وہ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ ن لیگ کیلئے لاہور میں بھی کامیابی اس کیلئے کارداردہے، یہی نہیں شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل کے بعد اب محمد زبیر کے ن لیگ سے علیحدہ ہونے اور شریفوں کی جنرل باجوہ اور فیض حمید سے ملاقاتوں کے انکشافات نے شریف خاندان کو بڑی زک پہنچائی ہے۔ ہمارا اندازہ تو یہ ہے کہ لاڈلا نوازشریف اگر الیکشن جیت بھی جائے تو وزارت عظمیٰ اس کے نصیب میں نہیں ہے۔ ہمارا تجزیہ تو یہ بھی ہے کہ الیکشن 8 فروری کو ہوتے نظر نہیں آتے ہیں، اگر یہ مرحلہ تکمیل کو پہنچ بھی جاتا ہے تو جیسے ہم پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ ایوان مختلف ٹکریوں پر مشتمل ہوگا اور ہماری توقعات کے مطابق اگر پی ٹی آئی کو لیول پلیئنگ فیلڈ ملتی ہے تو عمران خان پارلیمنٹ میں مضبوط ہو کر آئے گا اور یہ حقیقت یقیناً اسٹیبلشمنٹ کیلئے قابل قبول نہیں ہوگی۔
موجودہ منظر نامہ جس ڈگر پر جاتا ہوا نظر آرہا ہے وہ کسی طور بھی نہ ملک و عوام کے حق میں ہو سکتا ہے اور نہ جمہوریت کے تسلسل کا باعث لگتا ہے خصوصاً عدلیہ و اسٹیبلشمنٹ کے مابین بڑھتی ہوئی خلیج ایک ایسے بحران کا پیش خیمہ بنتا ہو انظر آتا ہے۔ خدا نہ کرے کہ ہمارا اندیشہ درست ہو کہ ایسی صورت میں عوام اور جمہوریت کو ہی نقصان نہیں پہنچے گا وطن عزیز بھی شدید بحران سے دوچار ہو سکتا ہے کاش ہماری مقتدرہ وطن عزیز اور عوام کی خاطر اپنے مقاصد پر نظر ثانی کرے، عوام اور وطن کی سلامتی و استحکام کیلئے عمل پیرا ہو۔
کہیں سے زہر کا تریاق ڈھونڈنا ہوگا
جو پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے سینوں میں
٭٭٭