تکبر فقط اللہ تبارک کی چادر ہے کوئی بھی انسان اگر اس چادر کے قریب بھی جائیگا تو اس کا انجام فرعون کی طرح تباہی اور بربادی ہی سے اور بدقسمتی سے جن لوگوں کو غرور اور تکبر کی بیماری لگ جاتی ہے۔ انکا حشر خراب تو ہوتا ہے لیکن اس کے علاوہ وہ لوگ ذلت ورسوائی کی اتہا گہرایوں میں گر جاتے ہیں پھر ان لوگوں سے سوچنے، سمجھنے اور سننے کی صلاحیت بھی چھن جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی سیاست میں ہم نے ایسے کچھ لوگ دیکھے ہیں جن کے متعلق قرآن پاک میں کہا ہے کہ ان سے اللہ پاک نے سوچنے سمجھنے اور پرکھنے کی استعداد چھین لی گئی ہے اور یہ عقل کے اندھے اس بات کا احساس بھی نہیں رکھتے۔ آج ایک ایسے شخص کو بھگت رہے ہیں جو مکمل طور پر شیاطین کے نرغہ میں آچکا ہے اور خدا کا نام استعمال تو کرتا ہے لیکن خدا کے احکامات پر کوئی عمل نہیں کرتا ہے۔ زمینی وملکی قوانین کو توسرے سے مانتا ہی نہیں، خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے اسکے پاس آسمانی و زمینی قوانین کی اپنی تشریح ہے اسلئے وہ یہ جواز انحرافی کے لئے استعمال بھی کرتا ہے۔ آج وہ شخص سلاخوں کے پیچھے بیٹھ کر طاقت رکھتا ہے۔ جو اسے دنیاوی شیاطین نے دے رکھی ہے۔ اور اللہ نے اپنی رسی ڈھیلی کی ہوئی ہے جو ایک ہی دفعہ کھینچی جائیگی۔ انشاء اللہ پھر اسکی اڑان ختم ہوگی۔ اور وہ آسمان سے مرے ہوئے پرندے کی طرح آکر زمین سے ٹکرائیگا اور پاش پاش ہوجائیگا۔ اب اس شیطان کے جیلوں کا نشانہ سپریم کورٹ بن چکی ہے کیونکہ حال ہی میں اسی عدالت کے دو دھڑیدار جج مستعفی ہوگئے اور سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کا موقف تسلیم کرتے ہوئے ان کی جماعت سے انکا من پسند انتخابی نشان واپس لے لیا شدید کافی لوگوں کو یہ معلوم نہیں کہ تحریک انصاف کی اپنی پارٹی کے بنائے ہوئے آئین اور قوانین وضوابط کے مطابق مئی2021میں پارٹی کے اندرونی انتخابات(INTIO PASTY ELEDCOIS) ہونے تھے جوکہ نہ ہوئے الیکشن کمیشن بار بار اس سلسلے میں یاد دہانی کراتی رہی لیکن پارٹی سربراہ نے کوئی نوٹس نہیں لیا بلاآخر تنگ آخر جب الیکشن کمیشن نے انہیں وارننگ دی کہ اگر اپنے اپنی پارٹی کے اندر انتخابات نہیں کروائے تو آپ عام انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے تو 2022میں تحریک انصاف نے ایک سال کی مہلت مانگی جو بھی انہیں دیگئی اور جب دیگئی مہلت ختم ہوگئی تو پھر انہیں وارننگ دیگئی لیکن تحریک انصاف اور اس کے بانی کے خیال میں قوانین تو کمزوروں کیلئے بنائے جاتے ہیں۔ اسلئے کیونکہ وہ طاقت کا سرچشمہ ہیں قانون ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا وہ جب مسلسل الیکشن کمیشن کے احکامات کو نظر انداز کرتے رہے تو پھر الیکشن کمیشن جب انہیں فائنل وارننگ دی کہ انکی پارٹی کا انتخابی نشان اپنے واپس لے لیا جائیگا تو انہوں نے مجبوراً عجلت میں پارٹی کے انتخابات پشاور کے ایک نواحی گائو چمکنی میں دو دسمبر2023میں کروائی یعنی مئی2021میں ہونے والے انتخابات دسمبر2023میں کرائے گئے یعنی ڈھائی سال یا30ماہ کی تاخیر سے اور وہ بھی اپنے مرکزی دفتر جوکہ ایک تین منزلہ عمارت واقعہ اسلام آباد کے بجائے ایک تین منزلہ عمارت واقعہ اسلام آباد کے بجائے پشاور کے قریب ایک چھوٹے سے قصبہ چمکنی میں کروا دیئے جوکہ چند ہزار لوگوں پر مشتمل قصبہ ہے جس سے بیشتر پارٹی کارکنان اور رہنما بھی ناواقف ہیں۔ نہ کوئی نامینیشن فارم بھر لے گئے نہ چھپوائے گئے۔ سپریم کورٹ میں اپیل تو فائونڈر میر بابر اکبر نے کی تھی لیکن کیسے پرانے عہدیداران نے بھی آکر گواہی دی کہ ہم سینٹرل سیکیٹریٹ اسلام آباد گئے اور پارٹی عہدوں کے لئے نامینیشن فارم جب مانگے تو وہیں موجود کھلاڑیوں نے بتایا کوئی فارم نہیں خان جسکو چاہیگا وہی عہدیدار بنیگا تم لوگ بھاگو یہاں سے اپنا اور ہمارا وقت ضائع مت کرو۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی اپیل اور بابر اکبر کی درخواست نہیں ماننی تھی تو کیا کرتی؟ جس سیاسی جماعت کے سربراہ نے اپنی ہی جماعت کے آئین کو جس ہمدردی سے پامال کیا وہ ملکی آئین کو خاطر میں کسے لائے گا۔ بحرحال آج کی دنیا میں ایسے فرعون نما رہنمائوں کی کوئی کمی نہیں پہلے تو ہدف تنقید فقطہ روسی صدر پیوٹن ہی تھے پھر امریکی سابق صدر ٹرمپ بھی اسی فہرست میں شامل ہوگئے اور اب بانی تحریک انصاف بھی اسی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔ ان تینوں رہنمائوں میں تین قدر میں مشترکہ ہیں اور وہ ہیں انا پرستی، تکبر اور غرور اور تینوں پر برا وقت آیا ہوا ہے۔ پیوٹن کے خلاف روسی عوام کا غم وغصہ بڑھتا جارہا ہے روسی فوج میں بھی بغاوتیں جنم لے رہی ہیں ادھر امریکا میں ڈونالڈ ٹرمپ بھی کئی مقدمات میں گھرا ہوا ہے۔ جس میں بغاوت کے مقدمات بھی شامل ہیں جس طرح بانی تحریک انصاف پر بھی کئی مقدمات خصوصاً ان دونوں رہنمائوں میں ایک اور قدر مشترکہ بھی ہے کہ انہیں جب عدالت میں آنے کا کہا جاتا ہے تو یہ جج حضرات کو بھی دھمکیاں دیتے ہیں کہ ملک جب دوبارہ اقتدار میں آئوں گا تو تمہیں سبق سکھاونگا جس نے انصاف کی توقعہ رکھتے ہیں انہیں دھمکیاں بھی دیتے ہیں یہ رویہ ان دیکھا اور نرالہ ہے۔ جو اس سے پہلے کبھی نہیں نظر آیا۔
٭٭٭٭