نظریہ ضرورت یا عدل وانصاف !!!

0
38
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

عدل وانصاف حکم ربی ہے۔اعدلو ھواقرب للتقویٰ، عدل کرو عدل تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور نظریہ ضرورت نہ قانون ہے نہ ضابطہ نہ ہی کوئی قاعدہ ہے یہ ایک ایسی حالت ہے جو ناانصافی کو مصلحت کے نام پر جواز فراہم کرتی ہے اور یہ مغرب کے نام نہاد دانش وروں کی اختراع ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے جس کے دستور کی پہلی سطر ہی حاکمیت اعلیٰ اللہ کی ہے۔ دو ہی ریاستیں مذہب کے نام پر وجود میں آئی ہیں۔ ایک اسرائیل ہے اور دوسرا پاکستان لگ بھگ ایک آدھ سال کے فرق کے ساتھ دونوں ساتھ ساتھ وجود میں آئی ہیں۔ اسرائیل اپنی مذہبی شناخت کے ساتھ دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے اور لطف یہ ہے کہ جمہوریتوں کے چیمپئن امریکہ اور برطانیہ تن من دھن کے ساتھ اس کی توسیع پسندی کو بڑھاوا دے رہے ہیں مگر اسرائیل نے اپنی مذہبی شناخت پر سودا نہیں کیا مگر پاکستان جو لاالہٰ الااللہ کی بنیاد اور نعرے پر بنایا گیا اسے سیکولر بنانے حتیٰ کہ سوشل ازم کے انقلاب کی آماجگاہ بنانے کی بھی کوشش کی گئی۔ کامیاب تو نہ ہو سکے مگر پاکستانی عوام کو کنفیوژ کرگئے۔ پاکستان آہستہ آہستہ اسلامی نقطہ نظر سے پیچھے ہٹتا چلا گیا۔ اس کی جگہ نظریہ ضرورت نے جڑ پکڑلی نظریہ ضرورت کے تحت چند طالع آزماء فوجی جرنیلوں نے مارشل لگائے اور اپنی مرضی سے اسلام کا نام لے کر پاکستانی عوام کی خوب تذلیل کی۔ ہماری عدلیہ کو بھی جب کبھی ضرورت بڑی نظریہ ضرورت کے تحت ناجائز فیصلے دیئے اور عدلیہ کے ججوں نے خوب سونا چاندی اکٹھی کی اور اگر کوئی سیاسی بھی مذہب اسلام کی آڑ لے کر آمریت پھیلانے کے لئے میدان میں اُترا اُسے بھی نظریہ ضرورت کے تحت قبول کرلیا گیا کہ چلو اسلام کا نام تو لیتا ہے۔ اسلامی عدل وانصاف نظریہ ضرورت کا قاتل ہے دو مثالیں آپ کی نذر ہیں۔ ایک قرآن مجید کی اور دوسری سرکار دو عالم کی سورہ مائدہ کی آیت نمبر100ارشاد ربانی ہے۔ اے میرے محبوب میرے بندوں سے فرما دو خبیث لوگ اور طیب لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے خبیث لوگوں کی کثرت تمہیں تعجب میں نہ ڈالے۔ اے عقل والو، تم اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ فلاح پائو اس آیت میں اللہ پاک نے نظریہ ضرورت کو رد کیا کہ اگرچہ بدکردار لوگوں کا جم غفیر ہو اور نیک ایک آدمی ہو تو وہ میرا فیصلہ اس ایک کے حق میں ہے۔ اسی عدل کی توقع اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔ سرکار دو عالم کے زمانے میں قریش کے خاندان سے ایک خاتون پکڑی گئی آپ نے سزا جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ لوگوں نے کہا یارسول اللہ معاف کردیں۔ بڑی معزز گھرانے کی خاتون ہے۔ نظریہ ضرورت کے تحت معاف فرما دیں اگلا جواب آپ سب کو معلوم ہے سیاسی لوگ اپنی تقریروں میں مثالیں دیتے ہیں آپ نے فرمایا عدل وانصاف کے سامنے کسی نظریہ کی ضرورت نہیں۔ اگر میری بیٹی بھی ہوتی تو میں یہی فیصلہ کرتا۔ گویا کہ آپ نے نظریہ ضرورت کو دفن کردیا۔ سو اے امیرے پاکستان بھائیو۔ حسن اتفاق سے فوج کا رخ بھی سیدھا ہے۔ عدلیہ بھی فیصلہ کر چکی ہے کہ وہ اب فیصلہ عدل کے ساتھ ہی کرے گی۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بدکردار سیاستدانوں کو الگ کریں نیک اور صالح قیادت آگے لائیں تاکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں صحیح اسلام کا تشخص اجاگر ہو۔ جس نیت کے ساتھ پاکستان بنایا گیا تھا پھلے پھولے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here