میرے لفظ میرے نشید ہیں ”جمیل عثمان“ کے شعری مجموعے کی تقریب پذیرائی

0
357

 

حلقہ¿ ارباب ذوق کا خراج تحسین، ٹرائی اسٹیٹ ایریا کے نامور شعراءو ادیبوں کی شرکت، خالد عرفان نے اپنے کلام سے محفل کو زعفران بنا دیا
صبیحہ صباءنے ادب و شاعری کی پرانی یادیں تازہ کر دیں، نظامت زریں یاسین اور صائقہ جنجوعہ نے کی، بعد تقریب طعام پیش کیا گیا

نیویارک(پاکستان نیوز) حلقہ¿ ارباب ذوق نے اپنے ماہانہ اجلاس میں پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت جمیل عثمان کے شعری مجموعہ کی تقریب کا اہتمام کیا، سینچر 29 فروری کی یہ شام ایک یادگار شام تھی جس میں ٹرائی اسٹیٹ ایریا کے معروف شاعروں اور ادب نواز شخصیات نے شرکت کی تھی، اس پروگرام کی صدارت صبیحہ صباءنے کی جو شمالی امریکہ میں شاعری کے حوالے سے جانی پہچانی جاتی ہیں، ان کےساتھ ہی مہمان خصوصی طنز و مزاح کے مشہور شاعر خالد عرفان تھے، ڈاکٹر احتشام قریشی پنسلوینیا سے تشریف لائے تھے اور محفل کے مہمان خصوصی تھے، صاحب کتاب جمیل عثمان کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی اس پروگرام کی نظامت زریں یاسین کر رہی تھیں، انہوں نے مہمانوں کے تعارف کے بعد جمیل عثمان اور ان کی کتاب پر مقالہ پڑھتے ہوئے ان کی تخالیق کا ذکر کیا اور ان کے کچھ اشعار پڑھ کر سنائے، انہوں نے کہا شاعر داخلی اور خارجی احساسات جو زندگی کی تلخیوں سے جُڑے ہوتے ہیں کی عکاسی اپنے اشعار اور تحریروں میں کرتا ہے اور جمیل عثمان نے افسانوی میدان سے شاعری تک بھرپور طور پر کیا ہے اس کے بعد مشہور شاعر اور مقبول شخصیت اور فکر وفن کے صدر وکیل انصاری کو دعوت دی گئی انہوں نے جمیل عثمان کے تعلق سے بہت سی خوبصورت یادیں اور باتیں ناظرین کو بتائیں، انہوں نے باور کرایا کہ جمیل عثمان واحد شخصیت ہیں جن کی دو کتابوں پوچھو تو جانیں، (بچوں کیلئے) اور شعری مجموعے جو آپ کے سامنے ہے کا اجراءاور تقریب پذیرائی ہوئی ہے کتاب پڑھ کر لگتا ہے وہ صرف افسانوی میدان میں ہی نہیں بلکہ عرصہ سے شاعری کر رہے ہیں جس کا ثبوت میرے لفظ میرے نشید ہیں، ہے جو دل میں سما جانے والے موضوع پر شاعری ہے میں انہیں ایک مکمل ادیب کے طور پر دیکھتا ہوں۔ ان کے بعد زریں یاسین نے پنسلوینیا سے آئے مہمان خصوصی جو تنظیم کے بانی بھی ہیں اور اپنے پیشے میں معروف ترین شخصیت ہیں ڈاکٹر احتشام قریشی کو دعوت دی، انہوں نے ان الفاظ میں جمیل عثمان کو کراج تحسین پیش کیا کہ ”جلا وطن کہانیاں، پڑھ کر ان کی شاعری سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہا کمال یہ ہے کہ وہ اپنے خیالات کو الفاظوں کی مدد سے اس طرح باندھتے ہیں کہ سننے اور پڑھنے والا اپنی کہانی سمجھتا ہے، ان کی شاعری میں تصوف کا عنصر بھی شامل ہے ان کے بعد تقریب کے اہم مقرر خالد عرفان نے کہا کہ تقریر یا مقالہ لکھنا آسان نہیں لیکن جمیل کی محبت ہے کہ میں یہ کر پایا ہوں جلا وطن کہانیاں کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ اس کے بعد شاعری میں مقام بنانا بے حد مشکل ہے کئی لکھاریوں اور شعراءکی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہ دونوں جگہ اپنا مقام نہیں بنا پائے لیکن جمیل عثمان نے اپنا راستہ الگ بنایا ہے غزلوں کے تعلق سے میں یہ کہونگا کہ وہ بے حد معصوم شاعر نظر آتے ہیں انہوں نے ان کی نظم سانحہ¿ کربلا کا ایک باب کا حوالہ دیا اور یہ باور کرایا !
حسین چاہتا تو اقتدار لے لیتا
نشاط و کیف کے لیل و نہار لے لیتا
خالد عرفان نے کتاب میں شامل تین بڑے ناموں کے لکھے مضامین پر یہ کہتے ہوئے تبصرہ بھی کیا کہ انہوں نے کتاب کی اصلاح میں کوئی کوشش نہیں کی۔ اس کے بعد تقریب کی صدر صبیحہ صباءکے ہاتھوں کتاب کی پذیرائی کیگ ئی اور انہیں جمیل عثمان اور ان کے فن پر بات کرنے کی دعوت دی گئی، ڈاکٹر صبیحہ صباءبہت خوبصورت مقرر بھی ہیں ایک نامور شاعرہ ہونے کے ساتھ انہوں نے اپنی دلچسپ ابتوں سے شرکائے محفل کو جگا دیا، اس سے پہلے جمیل عثمان نے اپنی کتاب سے کچھ اشعار بھی پیش کئے۔
نام شہزاد ہے میرا لیکن
لوگ مجھ کو جمیل کہتے ہیں
ان کو آخربکھر ہی جانا ہے
اپنی آنکھوں میں خاک کیا رکھیں
برپا تھا جانداروں میں ہیجان رات بھر
میں بھی رہا بڑا پریشان رات بھر
ڈاکٹر صبیحہ صباءکی صدارتی تقریر کے بعد جس میں انہوں نے جمیل عثمان کو مجموعی طور پر ان کی ادبی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا میری خانے کا مسافر، اور جلاو طن کہانیاں ادب کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ تقریب کے اختتام کے بعد دوسرے حصے میں محفل مشاعرہ کا انعقاد تھا جس میں نجیب بخاری، ڈاکٹر تربت شاہ، سعد ملک، آفتاب قمر زیدی، جمیل عثمان، ڈاکٹر رخشندہ، وکیل انصاری، فرحت ندیم، ہمایوں زریں یاسین، صاعقہ جنجوعہ اور صبیحہ صباءنے اپنے اپنے کلام سے شریک محفل کو محظوظ کیا اور مندرجہ ذیل میں سے کچھ شعراءکے اشعار سعد ملک، گر ہوئی ہے کوئی تجزی سزا پہلے سے
میں ہوں ہر بات پہ راضی بہ رضا پہلے سے
ڈاکٹر رخشندہ: بدلے موسم تیری جفاﺅں کے
ہم رہے منتظر وفاﺅں کے
جمیل عثمان شب کی رفاقتوں کے طلبگار سو گئے رہنا تھا رات بھر جنہیں بیدار ہو گئے
زریں یاسین رکھی بہت سنبھال کے جنرلوں کی کہکشاں
فرحت ندیم ہمایوں: میری قسمت میری تقدیر ہو نہیں پائی، وہ میرے خواب کی تعبیر ہو نہیں پائی، خالد عرفان لوگ پیتے ہیں تو پیتے ہی چلے اجتے ہیں
یہ نہیں دیکھتے کہ پکی ہے کہ کچی ہے ابھی
ہمیں تو انگور کی بیٹی نے کیا ہے برباد
اور انگور یہ کہتا ہے کچی ہے یہ ابھی
ڈاکٹر شفیق: دل کی وہ بات بہت سنتے ہیں ہر رو زشفیق
ان کو دیکھا ہے کہیں آج بھی نادانوں کےساتھ
صبیحہ صبائ: آئیں اور ڈھیروں داد ملیں ان کے اشعار
کیا سنائیں غیر کو حال درون خانہ ہم
یاد کرتے ہیں اسے روتے ہیں بے تابانہ ہم
بند تو آنکھیں کئے ہیں آرزو مندانہ ہم
دیکھ پائیں گے رے کیا صورت جاناناں ہم
تقریب کے اختتام پر طعام پیش کیا گیا اور یوں یہ مھفل اختتام کو پہنچی
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here