پالیسی بدلنا ہوگی!!!

0
18
ماجد جرال
ماجد جرال

پاکستان کے کئی گمبھیر اور سنگین مسائل میں سے ایک دہشتگردی بھی ہے۔ اس دہشت گردی کو فروغ دینے والوں کو آج کی تاریخ میں خود سب سے بڑھ کر اس کا سامنا ہے۔ یہ کوئی منظم طور پر فروغ دی گئی دہشت گردی نہیں تھی تاہم وقتی فائدوں کے لیے ان گروپوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بعد ہم اس دہشت گردی کے فروغ میں کسی نہ کسی طرح ضرور شریک جرم ثابت ہوتے ہیں۔ہمارے قومی رہنمائوں اور طاقت ور حلقوں کو بھی اب سمجھ نہیں آتی کہ اس صورت سے جان کیسے چھڑائیں۔ آج دنیا کے سامنے مسائل کچھ اور ہیں جبکہ ہمارے مسائل اج بھی وہی 50 سال پرانے ہمارے منہ دیکھ رہے ہیں۔
شاید ہمارے اس پاس کے ممالک نے بہت پہلے ان مسائل پر قابو پانے کے بعد ترقی کی شاہراہ پر اپنا راستہ پکڑ لیا تھا مگر ہم اس اکھاڑے میں آج بھی اپنے مسائل سے کُشتیاں لڑنے پر مجبور ہیں۔دنیا ڈیجیٹل ترقی کہ اس دوڑ میں شامل ہو چکی ہے جہاں مستقبل محفوظ بنانے کے لیے نوجوانوں کو تیار کیا جا رہا ہے جبکہ ہمارے ہاں آج بھی شاید ای میل بنانا ایک اہم مسئلہ ہے۔ہماری باتوں میں بھوک ،افلاس ،غربت جانے کا نام نہیں لے رہی، ہم کیا ارٹیفیشل انٹیلی جنس پر بات کریں گے۔ہم اپنے گھر کے سربراہ کے طور پر ان مسائل کے سبب کامیاب نہیں ہوتے تو ہم میں سے کون گوگل اور بڑی بڑی کمپنیوں کے سربراہ کے طور پر جانے کا سوچے گا۔
کیا پاکستان یوں ہی دہشت گردی کے ساتھ لڑتے لڑتے اپنا وقت برباد کرتا رہے گا، یا اب بھی وقت ہے کہ ہم اس راستے کو اپنا لیں جو دہشت گردی کے خاتمے کی نوید سنائے گا، ضروری تو یہی ہے کہ ہم اب اپنی پالیسیوں کو حتمی طور پر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے استعمال کریں اور کسی بھی چیز کو وقت کا تقاضا تصور کرتے ہوئے غیر قانونی تحفظ نہ دیں، اسی میں پاکستان کی نسلوں کا مستقبل محفوظ نظر آتا ہے۔ خدا کرے کہ پاکستان کے پالیسی سازوں کو یہ بات سمجھ آجائے کہ دہشت گرد کسی کے بھی اپنے نہیں ہوتے یہ وقت پڑنے پر آپ کے خلاف ہی استعمال ہوتے ہوئے نظر آئیں گے۔ بقول شاکر شجاع آبادی۔
تمنا اپنے گھر دی ہے، وطن خوشحال وی ہووے
چلو گھر بھاوئے نہ ہووے ضروری ہے امن ہوئے
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here