”صرف دو ماہ میں نظام تہہ وبالا”

0
16

”صرف دو ماہ
میں نظام تہہ وبالا”

ٹرمپ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے صرف دو ماہ کے اندر پورا ملکی نظام ہل چکا ہے، امریکی جامعات میں فلسطینیوں کے حامی طلبا کی گرفتاریوں اور ملک بدری کا سلسلہ باقاعدگی کے ساتھ جاری ہے، امریکا میں گزشتہ سال فلسطینیوں کے حق میں مظاہروں میں شریک رہنے والے مسلمان طلبہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے غیر ملکی شہریوں کو ملک بدر کرنے کی کوششوں کے بارے میں فکرمند ہیں۔یہ طالب علم اب اُمید کر رہے ہیں کہ امریکی عدالتی نظام انہیں سیاسی سرگرمی کے خلاف انتظامیہ کے وسیع تر کریک ڈاؤن کے حصے کے طور پر ممکنہ جلاوطنی سے بچائے گا، ان کی امیدوں کو اس وقت تقویت ملی جب ایک وفاقی جج نے کولمبیا یونیورسٹی کے گریجویٹ اور فلسطینیوں کے حامی معروف کارکن محمود خلیل کی ملک بدری کو عارضی طور پر روک دیا۔ ڈسٹرکٹ جج جیسی ایم فرمان نے سماعت سے قبل حکومت کو محمود خلیل کو ملک بدر کرنے سے روکنے کا حکم جاری کیا۔سابق صدر براک اوباما کی جانب سے مقرر کردہ جج نے کہا کہ درخواست پر فیصلہ آنے تک عدالت کے دائرہ اختیار کو برقرار رکھنے کے لیے درخواست گزار کو اس وقت تک امریکا سے نہیں نکالا جائے گا جب تک کہ عدالت کا کوئی اور حکم نہیں آجاتا۔گرین کارڈ رکھنے والے محمود خلیل کو فلسطین کے لیے احتجاج میں ملوث غیر ملکی شہریوں کو نشانہ بنانے کی وفاقی کوشش کے حصے کے طور پر گرفتار کیا گیا تھا۔ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسیوں کے جواب میں طلبہ نے منظم ہونا شروع کر دیا، منگل کے روز شکاگو یونیورسٹی کے درجنوں طلبہ اور اساتذہ نے محمود خلیل کی حمایت میں ریلی نکالی اور نیویارک میں ہونے والے مظاہروں میں شامل ہوئے، پروفیسر کیلی میدوف کا کہنا ہے کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے دوستوں اور ساتھیوں کو ملک بدر کیا جائے۔محمود خلیل کی رہائی کے لیے ایک آن لائن پٹیشن پر 5 لاکھ افراد نے دستخط کیے تھے، جس میں امریکی ایجنسیوں اور یونیورسٹیوں دونوں سے مداخلت کی اپیل کی گئی تھی تاہم، ٹرمپ انتظامیہ نے ‘یہود دشمنی کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹاسک فورس’ قائم کی ہے جس نے کولمبیا، جارج واشنگٹن اور ہارورڈ جیسی یونیورسٹیوں کا دورہ کیا، اس کے علاوہ انتظامیہ نے حماس کی حمایت کرنے والے غیر ملکی شہریوں کے ویزے منسوخ کرنے کے لیے ‘مصنوعی ذہانت کی مدد سے کیچ اینڈ ری ٹینڈر’ اقدام بھی متعارف کرایا ہے۔ٹرمپ نے عوامی طور پر آئی سی ای کے اقدامات کی حمایت کی اور محمود خلیل کو ‘بنیاد پرست غیر ملکی حماس حامی طالب علم’ قرار دیا اور دیگر احتجاجی طلبہ کے خلاف بھی اسی طرح کے اقدامات کا انتباہ کیا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ کولمبیا اور دیگر یونیورسٹیوں میں ایسے کئی طلبہ ہیں جو دہشت گردی کی حمایت، یہود اور امریکا مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو نے حماس کی حمایت کرنے والوں کے ویزے یا گرین کارڈ منسوخ کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا، جس کے نتیجے میں انہیں ملک بدر کیا جائے گا۔ محکمہ انصاف اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ کولمبیا یونیورسٹی میں غزہ جنگ کے خلاف مظاہروں کے دوران دہشت گردی کے قوانین کی ممکنہ خلاف ورزیاں ہوئیں۔ اس سے گذشتہ سال کے ملک گیر اسرائیل مخالف مظاہروں کے مرکز پر تازہ دباؤ آیا ہے۔شہری حقوق کے حامیوں نے اس اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آئین کی پہلی ترمیم مظاہرین کے آزادء اظہار سمیت دیگر حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔ٹرمپ انتظامیہ نے کولمبیا کو بتایا ہے کہ سکول کو ایک پیشگی شرط کے طور پر پالیسی میں تبدیلیاں کرنا ہوں گی اگر وہ گذشتہ ہفتے معطل کردہ وفاقی فنڈنگ میں 400 ملین ڈالر کی بحالی پر بات چیت شروع کرنا چاہتے ہیں ۔جمعرات کو ایک خط میں بیان کردہ مطالبات اتفاقاً اسی وقت سامنے آئے جب کولمبیا کے نیو یارک کیمپس میں وفاقی ایجنٹوں نے ہاسٹل کے دو کمروں کی تلاشی لی۔ یہ تلاشی امیگریشن حکام کے محمود خلیل کو حراست میں لینے کے ایک ہفتے بعد ہوئی جنہوں نے کولمبیا میں گزشتہ سال کے احتجاج کی قیادت کی تھی۔ انہیں ملک بدر کرنے کی کوشش ایک وفاقی عدالت نے روک دی ہے۔اس ہفتے کے شروع میں محکمہ تعلیم نے خبردار کیا کہ وہ مبینہ طور پر یہودیوں کے لیے مخالفانہ ماحول برداشت کرنے کے الزام میں 60 سکولوں کی تفتیش کر رہا ہے۔ ایک متعلقہ اقدام میں اس نے جمعہ کو کہا کہ وہ ان شکایات پر غور کر رہا ہے کہ 45 یونیورسٹیاں ایک تنوع پروگرام چلا رہی ہیں جو نسل کی بنیاد پر اہلیت کا تعین کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ ایسی سرگرمیاں 1964 کے شہری حقوق کے قانون کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ٹرمپ کے دور حکومت کے ابتدائی دو ماہ کے دوران دوہرے معیار کی درجنوں مثالوں نے سر اٹھایا ہے ، حکومت کی جانب سے ایسی یونیورسٹیوں ، کالجز کو فنڈنگ کے لیے نظر انداز کیا گیا جنھوں نے اسرائیل کے خلاف احتجاج کیا، اب دیکھنا ہے کہ اسرائیل کے نام پر تعلیمی اداروں اور طلبا سے ناانصافیوں کا سلسلہ کب تک جاری رہے گااور اس کو انتہا تک لے جایا گیا تو نتائج یقینی طور پر بہت بھیانک ہوں گے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here