پاکستان زرعی ملک ہونے کے باوجود گندم کی قلت کیوں؟

0
133
پیر مکرم الحق

پاکستان کی70فیصد عوام زرعی یا زراعت سے منسلک کام کی انجام دہی کرتی ہے اور سرزمین پاکستان کی68فیصد زمین پر مشتمل دیہی علاقہ ہے اور فقطہ32فیصد زمین پر شہری علاقہ کہلاتا ہے ،پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے اور گندم کی پیداوار کے لحاظ سے دنیا کے دس بڑے گندم پیدا کرانے والے ممالک میں شامل ہے۔خوش قسمتی سے پاکستان کی80 فیصد زرعی زمین نہری زمین ہے صرف 20فیصد بارانی ہے۔یعنی بارش کے پانی پر انحصار کرتی ہے پانچ نہریں بہتی ہیں سمندر بھی ہے پہاڑ بھی ہیں ریگستان بھی ہے۔میوہ جات سبز اور خشک دونوں اقسام کی پیداوار میں بھی خودکفیل ہے آمر سے لیکر کھجور، انگور، سیب، خوبانی، آڑو جامن شریف اور بہترین کیلا بھی پاکستان میں موجود ہے پھر کیوں؟ آخر کیوں؟ پاکستان میں غذائی قلت ہے؟صرف ایک ہی وجہ سے نااہلی اور سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ نیچے سے اوپر تک بدعنوانی کا راج ہے پھر نہایت افسوسناک بات ہے کہ ہماری افسر شاہی نے زراعت کی اہمیت کو نہیں جانا اور صنعتی ترقی پر زوردیتے رہے جس کا انحصار تیل گیس اور بجلی پر ہے جب سے توانائی کے تمام عناصر کی قلت ہوئی ہے اور قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے صنعتیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں زرعی سیکٹر عدم توجہی کی وجہ سے پہلے ہی پیچھے رہ گیا ہے، زرعی اجناس کی کھلی برآمدگی اور اسمگلنگ کا نتیجہ غذائی قلت کی صورت میں سامنے آیا۔بدقسمتی سے ملک کی اکثر سیاسی قیادت کا تعلق بھی شہری آبادی سے ہے جہاں کاروبار مالی اداروں کے کاروبار پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔صرف گندم کو ہی لے لیا جائے تو ملک میں گندم کی پیداوار کو دیکھ لیا جائے تو اچھی خاصی پیداوار ہوتی ہے لیکن پیداوار کے بعد گندم کی خریداری اور سرکاری گوداموں کی ناقص انتظام میں دس سے پندرہ فیصد گندم ہر سال ضابطہ ہوجاتی ہے۔سرکاری گودام یا خریداری کا نظام بدعنوان اور نااہل اہلکاروں کے ہاتھ میں دیدیا جاتا ہے۔خریداری کیلئے بھی رشوت کا تقاضہ کیا جاتا ہے ،کسان یا کاشتکار اس وقت سخت مجبور ہوتا ہے کہ کہیں اسکی گندم زمین پر پڑے پڑے خراب نہ ہوجائے کہیں اگر بارش پڑ گئی تو خراب نہ ہوجائے؟۔ایسے میں ہر مرحلے پر سرکاری اور نیم سرکاری اہلکار کاشتکار کی مجبوری کا فائدہ لیتے ہیں۔ہمارے سرکاری اداروں میں بدعنوان اور نااہل لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں جن کی جرامزدگیوں کی وجہ سے کاشتکار جو فصل کاٹنے کے بعد قرضوں اور ادائیگیوں کے دبائو میں گھرا ہوتا ہے۔اسکی مدد یا داد رسی کے لئے کوئی یونین یا ادارہ سرکاری یا غیر سرکاری سطح پر موجود نہیں ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اتنا پریشان ہوجاتا ہے کہ اسی زمین پر آئندہ فصل کیلئے مرچیں یا پیاز ٹماٹر کی پیداوار میں دلچسپی لیتا ہے۔اسی لئے مندرجہ ذیل میں کچھ سفارشات پیش کی جاتی ہیں جن سے کاشتکاروں کی مشکلات کم کرنے اور گندم کی پیداوار میں اضافہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
(الف)گندم کی خریداری اور ذخیرہ اندوزی(گودام) کو چلانے کیلئے نجی وسرکاری اشتراک سے ادارہ یا ادارے قائم کئے جائیں جس میں خالصتا انتظامی کنٹرول نجی سیکٹر کو دیا جائے جو اسے اس کام کے ماہرین کے حوالے کرے جس میں مفادات کا تصادم نہ ہو جسے انگریزی میںCONFLICT OF INTEREST کہتے ہیں۔انتظامی کمیٹیوں میں کاشتکار اور کسانوں کی نمائندگی لازمی ہونی چاہئے۔تاکہ ان طبقات کے مسائل سامنے آئیں۔
(ب)صوبائی سطح پر چھوٹے چھوٹے زرعی قرضہ دینے والے اداے بنائے جائیں یا بائی لاز بنا کر بنانے کی اجازت دی جائے۔
(پ)آڑھتی یا ماڈل مین کے کردار اور کارکردگی پر نظر رکھنے کیلئے قوانین(ریگولیٹری) اور ادارے تشکیل دیئے جائیں اور یہ …..تمام زرعی اجناس پر لاگو ہونی چاہئے۔مڈل مین کو کاشتکار کے منافعہ کا پڑ حصہ ہضم کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔
(ت)گوداموں کی حفاظت اور انتظامیہ کیلئے زرعی ماہرین کی سفارشات پر ریگولیٹری قوانین اور اسٹینڈرڈز تشکیل دے جس میں نمی اور درجہ حرارت کے اسکیل ہر موسم کے حوالے سے مقرر کئے جائیں۔جن پر عمل کرنے سے25سے30فیصد گندم کی پیداوار کو خراب ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔مغربی ممالک نے ایٹمی قوت سے بجلی بنانے کے آلات سے پاکستان کو محروم کرکے صنعتی سیکڑ میں ترقی کو منجمد کردیا ہے لیکن زراعت میں پھر بھی پاکستان کی ترقی کیلئے بے گناہ گنجائش ہے جسے مل جل کر حاصل کیا جاسکتا ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here