المیہ تھا اور زخم لگانے والا۔ اپنے پیچھے مگر سنہری یادیں بھی چھوڑ گیا۔ ایثار سے بڑا کوئی وصف نہیں۔ اسی کو آدمی شعار کر لے تو بیمار کی رات ایسی زندگی سنور سکتی ہے۔ برگ و بار لا سکتی ہے۔ ہوٹل کا کمرہ پہلے سے زیادہ خوبصورت ہے مگر دریا کی جانب نہیں۔ جھروکا بھی نہیں، جو اس قدیم اور جلیل مسکن میں ہر کمرے کے ساتھ ہوا کرتا۔ دریا ہی نہیں تو جھروکا کیا۔ منظر ہی نہیں تو آنکھیں کیا اور تماشا کیا۔ دریائے نیلم کو دیکھ کر دل بجھ گیا۔ راوی کی طرح اب یہ ایک جوہڑ سا ہے۔عارف بہار نے پہلے سے بتا دیا تھا مگر ماضی کی فسوں انگیز یادیں! بیتے دنوں میں آدمی جیتا ہے تو دل کو ٹوٹنا ہوتا ہے۔ خود کو تسلی دی کہ سامنے قدیم پرشکوہ قلعے کی عمارت اب بھی اسی قدامت اور آب و تاب کے ساتھ کھڑی ہے۔ پھول نہ سہی، سبزہ تو ہے۔ قلب کے گداز کو کیا یہ کافی نہیں۔ ماضی ہمیشہ سہانا ہوتا ہے۔ فاروق گیلانی مرحوم کہا کرتے: قدرت کا ایک انعام یہ ہے کہ گزرے ایام کی تلخیاں دھیرے دھیرے دھل جاتی ہیں۔ لو دیتے ہوئے لمحے دمکتے رہتے ہیں۔ استاد احسان دانش پہ بھی ایسی ہی کوئی ساعت بیت گئی تھی۔ گو اب بھی ہوائیں آتی ہیں شب میں دھلے گلزاروں سے برکھا میں برستے ہیں نغمے بوندوں کے لچکتے تاروں سے امید کی تانیں اڑتی ہیں جھرنوں کے حسیں فواروں سے بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں تنہائی جنہیں دہراتی ہے آزاد کشمیر میں ایک انقلاب کے آثار ہیں۔ شاطر زرداری کے ایما پر پی ٹی آئی حکومت اکھاڑ پھینکنے کے لیے جوڑتوڑ جاری۔ اسی کی تفصیل کا سراغ لگانے کی سعی تھی۔ مشکل یہ آن پڑی کہ تھکے ماندے مسافر کو مسافت نے اور بھی تھکا دیا۔کمرے میں بند ہو کر رہ گیا۔ یہ بھی غنیمت ہے، دوا میسر آگئی اور تھپکی دیتی تنہائی بھی۔ اس جلیل القدر شاعر فیض احمد فیض نے ماضی کو یاد کیا تھا: تازہ ہیں ابھی یاد میں اے ساقی گلفام وہ عکسِ رخِ یار سے لہکے ہوئے ایام احمد راہی نے لکھا تھا:چاندنی راتوں میں وارث شاہ کی ہیر جب پڑھی جاتی ہے ڈولی چڑھدیاں ماریاں ہیر چیکاں تو آنسو بہہ نکلتے ہیں۔ ہیر کے لیے نہیں، یہ اپنے لیے ہوتے ہیں۔ ہر کسی نے زندگی میں کوئی لعل گنوایا ہوتا ہے۔ دوسروں کے الم سے اپنا الم یاد آتا اور کہرام مچاتا ہے۔ فردوس سے نکالا گیا آدم زاد۔ کتنی بے شمار یادیں اس شہر سے وابستہ ہیں۔ سردار عبد القیوم خاں، سردار سکندر حیات اور سردار ابراہیم خاں۔ آزاد کشمیر میں سبھی سردار ہوتے ہیں بلکہ نواحِ مری سے بھارتی سرحد تک، سب کے سب۔ یہ 2005 میں خزاں کا موسم تھا، رمضان المبارک۔ بنی گالہ میں عمران خان کا گھر ابھی ابھی مکمل ہوا تھا۔ سرِشام اس سے ملنے گیا۔ پوچھا: آخرِ شب کے خوفناک زلزلے میں آپ نے کیا کیا؟ بولا: بستر پر لیٹا دعا مانگتا رہا۔ بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی۔ تعجب سے اس نے دیکھا تو بتایا: ایک دوسرے احمق نے بھی یہی کیا۔ ہوشمند گھروں سے باہر نکل گئے تھے۔ کہا: خان کچھ چندہ جمع کریں۔ زلزلہ زدگان کی مدد کرنی چاہئیے۔ بولا: کون ہمیں چندہ دے گا۔ شوکت خانم کے لیے مانگتے ہیں، پارٹی کے لیے بھی۔ گزارش کی: پروردگار روپے نہیں گنتا، نیت دیکھتا ہے۔ چند گھرانوں کی مدد بھی ہو سکے تو فرض ادا ہو جائے گا۔ باقی خالق جانے اور اس کی مخلوق۔ بے بسی اور بے چارگی کے احساس سے بچنا چاہئیے۔ مایوسی دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ ایک چمک اس کی آنکھوں میں ابھری اور سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ اچھا؟اس نے کہا اور سوچ میں ڈوب گیا۔ کچھ دیر کے بعد پھر کہا اچھا؟ تیسرے دن عید الفطر کا تہوار تھا۔ تجویز کیا کہ یسین ملک کو ساتھ لے کر،جو اتفاق سے اسلام آباد میں تھے، مظفر آباد کا رخ کیا جائے۔یسین ملک کشمیر کی تاریخ کا ہمیشہ باقی رہنے والا منفرد کردار ہیں۔سولہ برس کے تھے، جب اپنی صلیب اپنے کندھوں پر اٹھائی۔ اب تک اٹھا رکھی ہے۔باقی انہیں بھول گئے تو تعجب کیا کہ لیڈر لوگ اکثر بے حس ہوتے ہیں۔ عمران خان بھی تقریبا بھول ہی گئے، کبھی ذکر نہیں کرتے۔ خیر،عید کا چاند دیکھنے کے بعد بنی گالہ پہنچا تو یسین ملک کے علاوہ احسن رشید بھی تھے۔ وہ فرشتہ صفت، جس کی دردمندی، ایثار کیشی اور انکسار کو کبھی کوئی بھول نہیں سکتا۔جس کی آواز کبھی بلند نہ ہوتی، جو کبھی احتجاج نہ کرتا۔ ہمیشہ برقرار رہنے والا صبر جس کی رگ رگ میں رچ بس گیا تھا۔ فرشتے جس پر رشک کرتے ۔ ایسا آدمی بھی ہوتاہے، جس کا قرض کوئی معاشرہ ادا نہیں کر سکتا۔ ہر روز جس کے لیے دعائیں کی جاتی ہیں اور یہ دعائیں عرش پہ باریاب ہوتی ہیں۔ احسن رشید ایسا آدمی تھا کہ اس کی نیکیاں ہزار آدمیوں میں بانٹ دی جائیں تو سب کے سب سرخرو ہوں۔ کوئی قصیدہ، کوئی خراجِ تحسین اس کے شایانِ شان نہیں۔ وہ آدمی، جس کے باطن کی طمانیت مستقل اسے سیراب رکھتی ہے۔ جتنے بھی لوگوں نے اسے دیکھا، سب گواہی دیتے ہیں کہ ایک جنتی آدمی کو اس نے دیکھا تھا۔ اعجاز چوہدری کے سوا، جسے فقط لیڈری درکار تھی۔ پختون خوا کے کچھ علاقے بھی زلزلے کی زد میں آئے تھے۔ پنجاب میں پرویز الہی اقتدار میں تھے۔مولانا فضل الرحمن نے دس ہزار عارضی گھر تعمیر کرنے کا اعلان کیا۔ ایک تہائی بھی نہ کر سکے۔ اپنے لیے مانگنے والوں کی مٹی میں احساس کی فصل نہیں اگتی۔ پنجاب کی کارکردگی اچھی تھی مگر عمران خاں فاونڈیشن کی سب سے بہتر۔ پورے دس ہزار شیلٹر ہوم خان نے بنا دیے۔ میر شکیل الرحمن نے اعانت کی۔ دونوں کے راستے بعد میں جدا ہو گئے۔ میر صاحب کو یہ ناچیز قصوروار نہیں سمجھتا۔ ایثار کا خیرہ کن مظاہرہ حمید گل خاندان نے کیا۔چونکا دینے والا اصرار اور حیران کر دینے والی ریاضت۔ بڑے بوڑھے، جواں سال اور بچے، سب کے سب کام میں جتے تھے۔ پہلے خود حصہ ڈالا، جاننے والوں سے رابطہ بعد میں کیا۔ واران کے بڑے بڑے کمرے امدادی سامان سے بھرے رہتے۔ہر وقت ٹرک میں سامان لادا جا رہا ہوتا۔ مزدور تو تھے ہی، خاندان کے افراد بھی مزدور تھے۔ان پڑھ محنت کشوں میں اس سے ولولہ جاگتا۔ دو گنا کام کرتے۔ میرے پڑوسی ریشم خان مرحوم کے آبائی علاقے اٹھ مقام میں عظمیٰ گل خود یا ان کے منیجر گئے۔راشن، خیموں اور ادویات کے علاوہ نقد رقوم بھی۔ اجلے ریشم خاں نے روپیہ لینے سے انکار کر دیا ان کاغذوں کا میں کیا کروں گا؟انہوں نے کہا لوگو ں کو چھت چاہئیے، آٹا، چینی، چاول، دودھ اور دالیں۔ وہ آپ نے پہنچا دیں۔ ان کاغذوں کا میں کیا کروں گا؟یہی وہ دن تھے، سردار سکندر حیات نے ایک ٹی وی انٹریو میں جب یہ کہا تھا میں ایک قبرستان کا وزیرِ اعظم ہوں مہم جاری رہی؛ تاآنکہ حالات معمول پہ آنے لگے۔ کراچی کے اہلِ خیر نے حدِ نظر تک قندیلیں جلا دیں۔ پنجاب بھی کچھ زیادہ پیچھے نہ رہا۔ بہت سے ممالک اور دنیا کے رضاکار ادارے ہاتھ بٹانے آئے۔سبھی نے روپیہ اور راشن فراہم کیا،عمارتیں بنائیں، دوائیں بھیجیں مگر جس الفت کا مظاہرہ ترکوں نے کیا، بس وہی کر سکتے تھے۔ محبت میں گندھا ایثار۔ترکوں جیسا پاکستان کا کوئی دوست نہیں اور ہمارے لیڈروں سے بڑھ کر ہمارا کوئی دشمن نہیں۔ 2010 کے تباہ کن سیلاب میں۔ طیب اردغان کی بیگم صاحبہ نے اپنے گلے کا ہار مصیبت کے ماروں کو دے دیا تھا۔ یوسف رضا گیلانی وہ گھر لے گئے۔ طوفان اٹھتے ہیں تو باطن زیادہ تیزی سے بے نقاب ہونے لگتے ہیں، جیسے کہ ان دنوں۔ المیہ تھا اور زخم لگانے والا۔ اپنے پیچھے مگر سنہری یادیں بھی چھوڑ گیا۔ ایثار سے بڑا کوئی وصف نہیں۔ اسی کو آدمی شعار کر لے تو بیمار کی رات ایسی زندگی سنور سکتی ہے۔ برگ و بار لا سکتی ہے۔
٭٭٭