پاک روس تعلقات ترقی کی جانب گامزن!!!

0
56
شمیم سیّد
شمیم سیّد

روسی صدر کے ساتھ ملاقات خطے میں چین،پاکستان اور روس کے بڑھتے ہوئے سٹریٹجک تعلقات کے حوالے سے اہم شمار کی جارہی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے درمیان ملاقات میں دونوں رہنماوں نے تجارت اور توانائی کے شعبے سمیت دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے پر اتفاق کیا ہے۔تاجکستان کے شہر آستانہ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے موجود ہیں۔وزیر اعظم نے ترک صدر سمیت متعدد ممبر ممالک کے سربراہون سے ملاقاتیں کی ہیں۔ پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ سستے تیل و گیس کا حصول ہے۔یوکرین جنگ سے قبل دونوں ملکوں کے درمیان اس سلسلے میں بات چیت شروع ہو چکی تھی جو جنگ ، مغربی دباو اور پاکستان کے داخلی حالات کی وجہ سے آگے نہ بڑھ سکی۔وزیر اعظم کی صدر پیوٹن سے ملاقات میں اس معاملے پر از سر نو بات ہوئی ہے۔تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے تناظر میں پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے روس کی جانب سے پیش کیے گئے موقع سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔وزارت پٹرولیم کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان اپنی کل خام تیل کی ضروریات کا 35 فیصد روس سے درآمد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس تناظر میں پاکستان توانائی کے شعبے میں تعاون کو مضبوط بنانے، توانائی کی تجارت کو بڑھانے اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری کو بڑھانے کے لیے تیار ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ روس اس سلسلے میں پاکستان جیسے ہی جذبات اور مقاصد رکھتا ہے۔روسی حکام کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان کے ساتھ توانائی کی تجارت کو فروغ دینے کے خواہاں ہیں ۔ وہ اپنی توانائی کی تجارت کو ایشیا کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کے ساتھ بھیمعاہدے کیے جا رہے ہیں۔ اس تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ ماسکو جنوبی ایشیا میں اپنی شراکت داری بڑھانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ امکان ہے کہ جنوبی ایشیا آنے والے برسوں میں توانائی کا ایک بڑا صارف بن جائے گا اور روس اس توقع کی بنیاد پر خطے کے ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔ اس صورت میں علاقائی ممالک کے درمیان تعلقات اور تنازعات پر غور کرنے کے لیے اہم عوامل بن جاتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ روس “جامع توانائی تعاون پلان” کو وسعت دینے کی کوشش کر سکتا ہے جس پر اس نے پاکستان کے ساتھ جنوبی ایشیا میں دیگر کلیدی کرداروں کو شامل کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ پاکستان اور روس کے درمیان “جامع گیس انفراسٹرکچر پلان” کے تحت شراکت داریاں تریب دی جا رہی ہیں۔ دونوں ممالک کی حکومتوں کے درمیان گیس کے بنیادی پائیدارڈھانچے کی ترقی اور پاکستان سٹریم گیس پائپ لائن منصوبے کے مستقبل کے لیے ایک جامع انفراسٹرکچر بنانے پر اتفاق پایا جاتاہے۔کثیر قطبی عالمی نظام کا قیام، اقوام متحدہ کے مرکزی کردار کو مضبوط بنانا اور بین الاقوامی تعلقات میں بین الاقوامی قانون کی بالادستی قائم کرنا نئی دنیا کی تشکیل کی علامت تھے۔ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے فریم ورک میں پاکستان کے ساتھ روس کا تعامل، ایک مستند بین الاقوامی ایسوسی ایشن کے طور پر ہے جو کہ علاقائی سلامتی کے ڈھانچے اور تعاون کے ایک اہم عنصر میں تبدیل ہوتی ہے۔روسی حکومت کا ماننا ہے کہ وہ تعاون بڑھانے کے لئے پاکستان کی خواہش کا احترام کریں گے ۔ پاکستان ایس سی او میں ایک مکمل رکن کے طور پر شامل ہے۔روس افغانستان کے تصفیے میں دونوں ممالک کی کوششوں میں قریبی ہم آہنگی رہی۔ افغانستان میں عدم استحکام، خاص طور پر نیٹو/ایساف کے انخلا کی روشنی میں، دونوں ممالک کو یکساں طور پر خطے میں بد امنی پر تشویش ہے۔ فطری طور پر دونوں دہشت گردی اور منشیات سے متعلق جرائم سے پاک پرامن، خوشحال اور جمہوری افغانستان میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ روسی حکام کا خیال ہے کہ قومی مفاہمتی عمل سمیت ملک میں تصفیے کی رفتار اور سمت کا تعین خود افغانوں کو کرنا ہے۔ پاکستان بھی اسی طرح کا نقطہ نظر رکھتا ہے۔پاکستان ان ریاستوں میں سے ایک ہے جو دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ گزشتہ دس برسوں میں 35 ہزار سے زائد شہری دہشت گردی کی غیر انسانی کارروائیوں میں شہید ہوئے اور ہزاروں سکیورٹی اہلکاروں و افسروں نے اپنے ملک کو انتہا پسندوں سے پاک کرتے ہوئے جانوں کا نذرانہ پیش کیا ۔ان دہشت گردوں کے وحشیانہ اقدامات کا اسلامی اقدار سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اس کا جواز پیش کیا جا سکتا ہے۔ روس مستقبل میں انسداد دہشت گردی کے متعلق پاکستانی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔ روسی حکام پاکستان کے ساتھ انسانی، ثقافتی اور سائنسی شعبے میں تعلقات کو فروغ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایک زمانے میں دونوں ملکوں کے درمیان ثقافتی وفود کا تبادلہ ہوتا رہا ہے ،یہ سلسلہ بحال ہونے سے دونوں ممالک کے عوامی رابطے بہتر ہو سکتے ہیں۔ سائنسی اور تکنیکی تعاون پر مفاہمت کی یادداشت اور ثقافتی و سائنسی معلومات کے تبادلوں کے پروگرام پر متعلقہ ایجنسیوں کے ذریعے کام کیا جا رہا ہے، اس شعبے میں بات چیت کے مزید امکانات کے لیے ایک مضبوط قانونی بنیاد کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ روس میں تعلیم اب بھی پاکستانیوں کے لیے گہری دلچسپی کا باعث ہے۔ اس وقت تقریبا 130 پاکستانی طلبا یہاں کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔ وہ نہ صرف کاروباری بنیادوں پر تعلیم حاصل کرتے ہیں بلکہ روسی بجٹ سے مختص تعلیمی گرانٹس کا بھی استعمال کرتے ہیں۔وزیر اعظم نے توانائی کے شعبے میں تعاون کی بات کی ہے، حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ماحولیات ، ٹیکنالوجی، خلائی تحقیق، انٹیلی جنس اور صنعت کاری میں روس کی صلاحیت سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here