عدلیہ کا کرپٹ نظام!!!

0
161
سردار محمد نصراللہ

قارئین وطن! دس سال پہلے میرے بڑے بھائیوں جیسے دوست اور ایک خالص مسلم لیگی سپریم کورٹ بار کے سیکرٹری کے طور پر الیکشن میں کھڑے ہوئے تھے چونکہ میرا تعلق اپنے والد مرحوم سردار محمد ظفراللہ ایڈووکیٹ کی وجہ سے اس فٹرنٹی کے ساتھ بڑا گہرا تھا اور ان کے نام کی بدولت میرا وکلا برادری کے ساتھ ایک گہرا تعلق تھا اور میں جب بھی پاکستان آتا بیرسٹر ملک سعید حسن مرحوم اور رانا اعجاز مرحوم کی شفقتوں کے سایہ میں ملک صاحب کے کیانی ہال میں مخصوص کارنر میں گزرتا گو ملک صاحب کا کارنر پکے پیپلز پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں کا تھا اب پتا نہیں میری طبیعت کی حلیمی کی وجہ سے میں سب کے لئے قابل قبول تھا ۔ ذکر ہو رہا تھا اسلم زار ایڈووکیٹ کا جب مجھے معلوم ہوا کہ زار صاحب الیکشن لڑ رہے ہیں تو میں نے نیو یارک میں بیٹھ کر ان کے لئے ووٹ مانگنا شروع کر دیئے چونکہ مجھے امریکہ آنے سے پہلے ہائی کورٹ بار کے ایک الیکشن کا آنکھوں دیکھا حال سعید احمد سعید کرمانی اور اعتزاز احسن کے درمیان ہو چکا تھا جس کے دوران میں نے بڑا را ڈی پن کا مظاہرہ کیا اور اپنے پھوپھی زاد بھائی شیخ جاوید سرفراز کو کہا کہ کرمانی صاحب کو ووٹ ڈالنا ہے میرے ڈیڈی کے دوستوں کو میرا ووٹ مانگنا اچھا لگا ،وقت گزرتا گیا میں نیو یارک میں تھا میں نے طلعت خان صاحب اور ان کے بڑے بھائی صاحب سے زار صاحب کے لئے ووٹ مانگا ان بھائیوں کی مہربانی کے نہ صرف اپنے دو ووٹ بلکہ دس پندرہ ووٹ لے کر دئے پھر میری دوستی قائد تحریک عدلیہ رانا رمضان صاحب کی وجہ سے شیرِ پاکستان علی احمد کرد ایڈوکیٹ صاحب سے ہو گئی اور مجھ کو ان کی ڈرائیوری کا اعزاز بھی تھا میں نے ان سے بھی ووٹ مانگے اور انہوں نے ووٹ بلوچستان سے زار صاحب کو ڈلوا ئے اور زار صاحب بڑی بھاری اکثریت سے سیکٹری منتخب ہوئے اور ان کے ساتھ یاسین آزاد صاحب صدر منتخب ہوئے بعد میں ان سے بھی بڑی دوستی ہوگئی اور ہمیں بار کے الیکشن اور ووٹ مانگنے کا چسقہ پڑ گیا میں نیاپنے جگر جان بھائی عارف چوہدری کے لئے بھی ووٹ مانگے جب وہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے صدر منتخب ہوئے ۔
قارئین وطن! ایک دفعہ میں بیرسٹر ملک سعید حسن ملک صاحب بھٹو مرحوم کے ساتھ پیپلز پارٹی کے سیکٹری جرنل تھے بعد آزاں بھٹو نے ان کو لاہور ہائی کورٹ کا جج بنا دیا کے آفس ٹرنر روڈ پر اور دوستوں کے ساتھ لنچ کر رہا تھا یکے آوٹ آف بلیو لاہور ہائی کورٹ بار کے الیکشن پر گفتگو شروع ہوگئی پتا چلا کے ملک صاحب کا مقابلہ ملک قیوم کے ساتھ تھا مشہور زمانہ وڈے بھائی صاحب نواز شریف وہاں بیٹھے دوست رانا صاحب نے بتایا کہ ملک صاحب نے لاکھ روپے خرچ کئے میں چونکا اور زور دے کر کہا کہ لاکھ رانا صاحب نے کہا کہ ملک قیوم نے کروڑ خرچ کئے میرے عزیزوں یہ الیکشن کی معیاد ایک سال ہوتی ہے جب میں نے حیرانگی ظاہر کی تو رانا صاحب نے کہا یہ کیسوں کی مار ہے ۔ خیر اس وقت تک میں کیسوں والا معاملہ سمجھ نہ سکا لیکن اپنے طور سوچتا رہا کہ ایک سال کے الیکشن کے لئے کروڑوں کی رقم خرچ ہوتی ہے یہ لوگ اپنے وکلا کے لئے کیا ان کے ریٹائیرمنٹ اور اولڈ ایج کے لئے کیا کام کرتے ہوں گے سوائے اپنے اور اپنے ہمنواں کے لئے ہی ریلیف مانگتے ہوں گے پھر میں نے محسوس کیا کہ وکلا برادری حامد خان گروپ اور عاصمہ جہانگیر مرحومہ کے گروپ میں تقسیم ہے اور سب سے بڑی لعنت کے معاشرے کا سب سے پڑھا لکھا طبقہ برادری ازم میں پھنسا ہوا ہے ۔ ایسے ماحول میں رول آف لا کی بات کرنے والے خود رول آف لا کا دن رات مذاق اڑا رہے ہیں ۔
قارئین وطن! یاسین آزاد اور اسلم زار صاحب کے الیکشن سے لے کر حالیہ الیکشن لطیف کھوسہ بمقابلہ احسن بھون سپریم کورٹ کا الیکشن کسی نظریہ یا اصول کے تحت مجھ کو سمجھ نہیں آیا اِن الیکشن میں مجھ کو selfishness اپنی ذاتی ترقی اور اعلی مقام کی جستجو کے سوا کچھ نظر نہ آیا احسن بھون ویسے تو لطیف کھوسہ کا شاگرد بھی تھا اور سال اس کے چیمبر میں کام کرتا رہا اور دونوں عاصمہ گروپ کے ہراول دستہ کے پیادے تھے اگر میرا حافظہ ٹھیک جگہ پر بیٹھا ہوا ہے تو جن دنوں چیف جسٹس چوہدری افتخار کی تحریک زورو پر تھی بھون پہلے چیف کا جان نثار تھا پھر ایسی قلابازی کھائی اور پرویز مشرفی کے ڈنڈے کے دبا میں آ کر ہائی کورٹ کی ججی قبول کر لی اور اس کے بعد منوں دولت کے انبار جمع ہو گئے یہ ہے احسن بھون صاحب کا کیریکٹر خیر اب وکلا کی برادری میں کیریکٹر کوء نہیں دیکھتا سب یہ دیکھتے ہیں کہ کھانا سب سے اچھا مہنگا اور کس ہوٹل میں کھلایا جاتا ہے یہ بھی ایک معیار ہے وکلا سے ووٹ لینے کا دوسرا ان کے ڈیوز کون ادا کرتا ہے بھون صاحب نے تین سو روپے پر ہیڈ لوگوں کو ایک کھانا فلیٹیز ہوٹل میں دیا اور اس طرح کے کئی کھانے اور لنچ اور ناشتے دونوں جانب سے دئے گئے بقول ہمارے دوست بھٹی صاحب کم سے کم احسن بھون صاحب نے کروڑ اور کھوسہ صاحب نے کوئی گیارہ کروڑ کے قریب خرچ کیا ہے۔ بھون صاحب کے لئے یہ رقم چار پانچ کیسوں کی مار ہے اس کے علاوہ اور بہت سے ان دیکھے فوائد اس جیت کے پیچھے چھپے ہوئے ہیں اب ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کرپشن کا گہوارہ بن گیا ہے اب ایسے ایسے جج بنائے گئے ہیں دونوں کورٹس میں کہ فیصلہ لکھنے میں کئے ہفتے لگ جاتے ہیں ہمارے محترم افتخار چوہدری صاحب نے اپنے دور میں ایک ایسی خاتون کو جج بنایا جن کی قابلئیت یہ تھی کہ موصوفہ نے ان کے سامنے ڈھول کی تھاپ پر بنگھڑا ڈالا کہ جج صاحب کو بڑا پسند آیا جس طرح نواز شریف بیبی دے مامے پھجن گے اس مولوی سے بار بار سنتا تھا چیف صاحب کو بھی اس بی بی کا بنگھڑا اتنا پسند آیا کہ انہوں نے بھی تین چار مرتبہ اس سے بنگھڑا ڈلوایا پھر کسی سے پوچھا کہ یہ خاتون کو ہے جواب ملا کے حضور یہ اپنی وکیل بہن ہے چیف افتخار نے خاتون کو ہائی کورٹ کا جج لگا دیا ۔
قارئین وطن! جس ملک کی عدلیہ کا نظام ڈھول کی تھاپ پر چلے قومی دولت لوٹنے والے شریفوں کو بیلیں ملیں چور آزاد پھیریں تو کہاں رول آف لا ملے گا ہمیں سپریم اور ہائی کورٹس کے الیکشنوں کو ایک سسٹم کے تحت لانا ہوگا ورنہ عوام کا نظام عدلیہ سے ایمان اٹھ جائے گا ہمارے سینئیر وکلا کو اِس بارے میں سوچنا چاہئے اور یہ جو کھانے پر ووٹوں کی خرید و فروخت ہوتی ہے بند کرنی چاہیے اور قائد اعظم کی فکر کے مطابق نظام عدل قائم کرنا چاہئے یہ پاکستان کی ضرورت ہے ایک اور بات جس کو دیکھنا ضروری ہے کہ حامد خان گروپ کی یہ پانچویں یا چھٹی شکست ہے کوئی تو وجہ ہے کہ عاصمہ جہانگیر مرحومہ کا آج بھی اتنا ہی اثر و رسوخ ہے جتنا وہ اپنے زندہ ہونے پر رکھتی تھی ۔ ہمیں زندہ و تابندہ عدلیہ چاہئے کہ پاکستان کی بقا اسی میں ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here