پاکستان کے سابق مرحوم پارلیمنٹرین مشاہداللہ خان کا ایک ویڈیو کلپ آج کل سوشل میڈیا کی دوبارہ زینت بنا ہوا ہے، جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم نے جیلیں بہت دیکھی ہیں لیکن جس دن آپ کو جیل جانا پڑا تو آپ کی آنکھوں سے گرنے والے آنسو پوچھنے والا کوئی نہ ہوگا، وہ آنسو ہم جیسے سینئر سیاستدان پوچنے آئیں گے۔
آج پاکستان تحریک انصاف سخت زیراعتاب آئی ہوئی ہے، ایک ایسی جماعت جس کا ٹکٹ حاصل کرنے کے لئے لوگ کروڑوں روپے دے رہے تھے، پاکستان کی بااثر شخصیات سے سفارشیں کروا رہے تھے، اچانک وہ لوگ چھوڑ کر جا رہے ہیں، کیا پاکستان تحریک انصاف کے پاس نظریاتی رہنمائوں کی کمی ہے، اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ صرف نظریاتی سیاستدان ہی کسی بھی جماعت کا اثاثہ ہوتے ہیں۔
مگر پاکستان تحریک انصاف اس معاملے میں بدقسمتی کا شکار اسی وقت ہوگی جب فوزیہ قصوری، جسٹس وجہہ، حامد خان جیسے کئی سینئر رہنما جو اس جماعت سے نظریاتی وابستگی رکھتے تھے، جماعت کو اپنے نظریے کی مخالف سمت جاتے ہوئے دیکھنے کے بعد گوشہ نشینی میں چلے گئے ،یا پارٹی کی وابستگی سے خود کو دور کرگئے مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف آج جس وقت سے گزر رہی ہے ،اس پر عوامی ردعمل ہمدردی کی وہ حد نہیں چھو پا رہا جو عموما پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم کے نتیجے میں سامنے آتا تھا، نامعلوم افراد کو بھی عوامی ردعمل کا خوف بے حد زیادتی کا نشانہ بنانے سے روکتا تھا۔
مگر آپ سب کو واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ ایک سیاسی جماعت کو کس طرح کے برتائو کا سامنا ہے مگر اس پر مخالف سیاستدانوں کے بیانات بالکل نفرت کے اسی لب و لہجے میں ڈوبے ہوئے ہیں جس میں کبھی پاکستان تحریک انصاف کے رہنمائوں کے لہجے ڈوبے ہوتے تھے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نفرت کے جو بیچ پاکستان تحریک انصاف نے بوئے اس کی مثال نہیں ملتی یہی وجہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کا مستقبل مرحوم مشاہداللہ خان کو نظر آتا تھا،، مگر افسوس کے وہ آج زندہ نہیں،، وگرنہ وہ ضرور دیگر جماعتوں کے رہنمائوں کو سمجھاتے کہ ان آنسوئوں کے گرنے پر مسکرانے کی بجائے وہ دن یاد کرو جب یہ آنسو ہماری آنکھوں سے باہر آیا کرتے تھے، اب وقت ہے کہ ہم ایک دوسرے کی آنکھوں پر مسکرانے کی بجائے ایک دوسرے کے آنسو پونچتے ہوئے ان آنکھوں کا سبب بننے والی قوتوں کے خلاف کوئی قدم اٹھائیں۔
٭٭٭