”شکریہ اکنا کنونشن”

0
50
مجیب ایس لودھی

اپنا دیس، ثقافت ، مذہبی اقدار ، بے خوف ماحول چھوڑ کر پرائے دیس میں آباد ہونا بہت مشکل ہوتا ہے ، خاص طور پر جب آپ کے ساتھ فیملی ہو کیونکہ اس کی دیکھ بھال، پرورش، دین اور تربیت کی تمام تر ذمہ داری خاندان کے سربراہ یعنی والد پر ہوتی ہے، بطور والد امریکہ جیسے ملک میں اپنے خاندان کی اسلامی طرز پر تربیت میرے لیے چیلنج سے کم نہیں تھی اور میں اس کیلئے بہت فکر مند رہتا تھا ، کھانا کھانے سے قبل دس مرتبہ سوچنا پڑتا تھا کہ آیا یہ پاک ہے یا نہیں۔
پھر آخر کار میری مشکل آسان ہونے کا وقت آ ہی گیا، آج سے کئی سال قبل میرے ایک اچھے دوست معاویذ صدیقی نے مجھے اکنا کنونشن کا راستہ دکھایا ، کیونکہ میں اس زمانے میں اپنے چھوٹے چھوٹے پانچ بچوں کے مستقبل کے بارے میں کافی فکر مند تھا ، اس ملک میں جہاں نہ حلال وحرام کی کوئی تمیز ہے جہاں حیا یا فحاشی میں کوئی تمیز نہیں ہے ہم اپنا ملک پاکستان چھوڑ تو آئے تاکہ اپنی موجودہ اور مستقبل کے خاندان کو معاشی طور پر بہتر بنائیں۔ امریکہ کی سرزمین میں رہ کر ایک بات کا تو تجربہ ہم کر سکتے ہیں اس سرزمین پر جو بھی محنت کرے گا اسے اس کا مستقبل مل جائے گا یہاں فراڈیئے بھی کامیاب زندگی گزارتے ہیں اور سخت محنت کرکے حلال کمانے والے بھی، ایک نہ ایک دن اپنا مقام حاصل کر ہی لیتے ہیں ،مجھے یاد ہے کہ18یا20سال قبل جب میرے پانچوں بچے چھوٹے تھے تو ان کے مستقبل بارے فکر مند تھا کہ انہیں دین اسلام ،مسلم کلچر کے بارے میں تربیت کیسے فراہم کی جائے ، خیر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے ایک تو میری بیوی نے جوکہ دین اسلام بارے ان کی اچھی تعلیم وتربیت کی اور اس سے بڑھ کر اکناماس کنونشن ہے جس میں دور دور سے والدین اپنے بچوں کو لیکر آتے ہیں، معاویذصدیقی نے مجھے اکنا کنونشن کا راستہ تو دکھا دیا اور پھر میں ہر سال تمام بچوں کو لیکر اکنا کنونشن میں جاتا ہوں لیکن اہم بات کہنے کی یہ ہے کہ آج سے18سال قبل میں بچوں کو اکنا کنونشن میں لیکر جاتا تھا لیکن آج تمام بچے ماشاء اللہ بڑے ہوگئے ہیں اوروہ آج مجھے اکنا اکنونشن جانے کیلئے اسرار کرتے ہیں اور ایک ماہ قبل ہی یاد دہانی کرانی شروع کردیئے ہیں” کنونشن میں جانے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ بچوں کو اپنے جیسے بچے ملتے ہیں، تمام بچیوں نے سر پر سکارف پہنا ہوتا ہے، بچوں(لڑکوں) نے داڑھی اور اسلامی لباس پہنا ہوتا ہے۔ ہر بچی یا بچہ صرف دیکھنے سے ہی مسلمان نظر آتا ہے۔ دور دور سے اسلامی سکالرز تشریف لاتے ہیں ،ہر موضوع کیلئے الگ سیشن ہوتا ہے ،دو سے تین دن تمام نوجوان بچوں کیلئے مختلف اسلامی سکالرز مختلف موضوعات پر لیکچرز دیتے ہیں، خوشی کی بات یہ ہے کہ تمام نوجوان بچے ان سکالرز کو سننے کیلئے جوق در جوق آتے ہیں اور بہت غورسے ان دینی سکالرز کو سنتے ہیں ، اس بار بھی سب سے پسندیدہ سکالرز یاسر قاضی اور عمر سلیمان تھے جب یہ دونوں حضرات لیکچر دینے آئے تو ہال میں تمام کرسیاں فل ہوجاتیں بلکہ پورے ہال میں زمین پر جگہ خالی نہ ملتی۔ بے شک یہاں سے نوجوان بچے دینی معلومات سیکھ کر جاتے ہیں اس بار گزشتہ سال سے زائد لوگ آئے۔ ایک اندازے کے مطابق25سے30ہزار کے درمیان نوجوان طبقہ امریکہ کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں سے آیا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم مکہ یا مدینہ کی سرزمین پر ہیں کہنے پر شخص ہر بچہ بچی مسلمانوں کے طرز پر نظر آتے تھے، ہر شخص ایک دوسرے کو سلام کرتا تھا، اسلامی کپڑوں میں ہوتا ہے اور جب نماز کا وقت آتا تھا تو نماز پڑھنے کیلئے جگہ کم پڑ جاتی تھی ایسا ماحول امریکہ میں کوئی دوسری جگہ ملنا مشکل ہے ،بے شک میں اپنے دوست معاویذ صدیقی کا مشکور ہوں جس نے مجھے اور میرے جیسے کتنی ہی خاندانوں کو اکنا کنونشن کا راستہ دکھایا جس سے ہماری آنے والی جنریشن بگڑنے سے بچ گئی۔ شکریہ اکنا،شکریہ اکنا، کنونشن کی تمام انتظامیہ کا جنہوں نے بہترین انتظامات کیے۔ اللہ سے دعا ہے کہ اکنا مزید ترقی کرے اور بے شک امریکہ میں دین اسلام پر اکنا کا سب سے بڑا احسان ہے کہ انہوں نے ہماری اگلی جنریشن کو بچا لیا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here