شفیق مراد میری نظر میں مرادِ محبت ہیں۔ محبت زندگی کی اساس ہی نہیں بلکہ عینِ حیات ہے۔ محبت کا متضاد لفظ نفرت ہے۔ محبت جتنی زیادہ ہو پھر بھی کم ہے اور نفرت جتنی کم ہو پھر بھی زیادہ ہے۔ شفیق مراد کی شاعری سراپا محبت ہی محبت ہے۔ وہ شریف اکیڈمی جرمنی کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ یو ٹیوب پر عالمی مشاعروں کا اہتمام کرتے ہیں۔ چند برس قبل ان کا پہلا شعری مجموعہ شہرِ مراد شائع ہوا تھا۔ وہ جرمنی سے اسلام آباد تشریف لائے۔ اس شعری مجموعہ کی تعارفی تقریب اکادمی ادبیات اسلام آباد میں منعقد ہوئی اور بقول حافظ شیرازی!
آسمان بارِ امانت نتوانست کشید
قرع فال بنامِ منِ دیوانہ زدند
اس تقریب کی صدارت کا اعزاز مجھے حاصل ہوا۔ نامور شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں نے ان کی شاعری اور شخصیت پر روشنی ڈالی۔ میں نے کتاب پر گفتگو کرتے ہوئے انہیں شاعرِ محبت قرار دیا۔ اب ان کا دوسرا شعری مجموعہ بعنوان میری ساری دعائیں ہیں تیرے لیے زیورِ طبع سے آراستہ ہو رہی ہے۔ یہ عنوانِ کتاب ایک طویل نظم کا عنوان ہے۔ کہتے ہیں!
میری ساری دعائیں ہیں تیرے لیے
تجھ کو میری دعائوں سے بڑھ کر ملے
وہ اپنے محبوب کے لیے دعا گو ہیں اور عقیدت و محبت کے پھول اس پر نچھاور کر رہے ہیں۔ مرزا غالب نے کہا تھا!
جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے
مرزا غالب اپنی محبوبہ پر جاں نثار کرنے کا اعلان تو کرتے ہیں لیکن دعا سے گریزاں ہیں جبکہ ہمارے ممدوح جناب شفیق مراد دو آتشہ ہیں۔ جان ہتھیلی پہ رکھے ہوئے کوچ محبوب میں سرگرداں بھی ہیں اور لب پر دعائیں بھی سجائے ہوئے ہیں۔گویا وہ اِس راہِ عشق میں میر تقی میر کے مقلد نظر آتے ہیں جو فرما گئے تھے !
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
دعا کو آپ کتنے نئے اندازمیں پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں!
تیرے نقشِ قدم میں ڈھلے یہ صبا
تیرے ہونٹوں کی جنبش ہو حرفِ دعا
اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ شفیق مراد کی مرادِ محبت یہ شعر ہے!
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اِس دعا کے بعد
شفیق مراد صاحب نے کتاب کا مسودہ بھیجا اور دیباچہ کی فرمائش کی، سچ بات تو یہ ہے کہ اس کتاب میں محبت کی جولانیوں اور طغیانیوں کا وہ سیلِ رواں ہے جو تھمائے نہ تھمے۔ دریا کو کوزے میں بند کرتے ہوئے چند سطور لکھ رہا ہوں۔
یہ بات تو طے ہے کہ شفیق مراد محبت کو زندگی اور زندگی کو محبت گردانتے ہیں۔ اِس لیے ان کے اشعار میں محبت اور زندگی کا رنگ و آہنگ ملتا ہے۔ کتابِ منظومات کا مجموعہ ہے۔چند نظمیں شاملِ کتاب ہیں لیکن ہر نظم طویل ہے اور ایک بحرِ ذخار ہے۔ ایک نظم راستے ستر اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب محبت نامہ ہے۔ شکست و ریخت ایک ارتجایی نظم ہے جو لفظ بہ لفظ کئی پرتیں کھولتی ہے۔ رجائیت کا پیام اور باد گلفام ہے جبکہ معصوم خواہش، سرگوشی، سراب، اور تاج محل رومانوی نظمیں ہیں۔اِن تمام نظموں کا لبِ لباب ان کا یہ شعر ہے
عشق تیرے پہ مجھ کو بہت ناز ہے
تیری باتوں میں جاں زیست کا ساز ہے
منقبت کے عنواں سے آپ کی یہ نظم دلسوز بھی ہے اور فکر انگیز بھی ہے۔ یہ نظم اردوشاعری کے ماتھے کا جھومر ہے۔ زندگی کے کئی پہلو اِس نظم میں اجاگر کیے گئے ہیں۔ کہتے ہیں
ہو رہا ہے آج بھی فتوں کا سو کاروبار
مفتیانِ دین نے لوٹا ہے دنیا کا قرار
یہ شعر ایک زندہ لیکن تلخ حقیقت ہے۔ تاریخِ عالم گواہ ہے کہ اِن مذہبی اجارہ داروں نے مذہب کے نام پر وہ کشت و کشتار اور خون ریزی کی ہے کہ انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔ شفیق مراد اگر ایک شعر بھی نہ لکھتے تو اِن کا یہ شعر دنیائے شاعری میں ان کی عظمت و ابدیت کے لیے کافی ہے۔ یہی بات توحافظ شیرازی نے کہی تھی
جنگِ ہفتاد و دو ملت ہمہ را عذر بنہ
چون ندیدند حقیقت رہِ افسانہ زدند
وطن میں رہ کر وطن کی اہمیت کا احساس نہیں ہوتا اور محبت کا جذبہ اس طرح موجزن نہیں ہوتا جس طرح وطن سے دوری میں ہوتا ہے۔ شفیق مراد کا جسم جرمنی اور دل پاکستان میں ہے۔ ان کی نظم شہرِوفا : وطن کے نام ان کی اپنے وطن سے محبت کی لاجواب نظم ہے۔ حب الوطنی کا آتش فشاں ان کے دلِ سوزاں کا عکاس ہے۔ گویا ان کی محبت کی شاعری محبوب اور وطن کی محبت کی آئینہ دار ہے۔
٭٭٭