امریکی صدور پر قاتلانہ حملے !!!

0
13
رمضان رانا
رمضان رانا

240سالہ امریکی تاریخ میں اب تک سات صدور پر قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں جس میں چار مارے گئے تین بال بال بچے گئے مگر شدید زخمی ہوئے۔ بعض کے ساتھی، اہلکار محافظ یا عام انسان زد میں آکر مارے جاچکے ہیں۔ امریکی صدر ابراھام لنکن پر1865میں قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ جان بحق ہوئے تھے۔ جو امریکی تاریخ کا سب سے بڑا سانحہ تھا جنہوں نے امریکہ میں جاری وساری غلامی کو ختم کیا تھا۔ امریکی خانے جنگی میں کامیابی حاصل کی تھی۔ ملکی باغیوں کو شکست فاش دی تھی جن کے دور میں انسانوں کی خریدوفروخت کو ممنوع قرار دیا گیا جس کی بنا پر ملک میں غلاموں کے مالکان نے خانہ جنگی مسلط کر دی تھی چونکہ صدر ابراھام لنکن کا تعلق ایک غریب ترین خاندان سے تھا جن کے والد لوگوں کو جوتیاں مرمت کیا کرتے تھے۔ جسکی وجہ انہیں بھی انہیں بھی اپنی زندگی میں بہت زیادہ محنت ومشقت کرنا پڑی جو بعد میں ایک وکیل بنے۔ جن کے اندر انسانی دکھ اور درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا جس کی بنا پر انہوں نے عہد غلامی سے چھٹکارا دلوایا جو ان کی موت کا سبب بنا۔ دوسرے صدر گیری فیلڈ پر1881 میں قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ موت کا سبب بنے۔ تیسرے صدر ولیم میلینسی کو1901میں مار دیا گیا تھا چوتھے صدر جان ایف کینڈی گزرے ہیں جن کو قاتلانہ حملے میں سرعام قتل کردیا گیا۔ جو سیاہ خاموں کے شہری حقوق کے حامی تھے جنہوں نے سیاہ فام سابقہ غلاموں کی اولادوں اور نسلوں کو زیادہ سے زیادہ حقوق فراہم کئے جو ان کی ہلاکت کاباعث بنا۔ قاتلانہ حملوں سے بچ جانے والوں میں صدر روز ویلٹ گزرے ہیں جن پر1912میں حملہ ہوا جو حملے سے بال بال بچ گئے۔ صدر ریگن پر1981میں حملہ ہوا جو بھی بچ گئے۔ صدر ٹرمپ پر13جولائی2024کو قاتلانہ حملہ ہوا۔گولی جن کے کان کو چھو کر نکل گئی جس میں وہ بچ گئے مگر کان سے خون بہنے لگا اب یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ جدید دور کی بندوق کی گولی تھی یاشرا تھا جس کی زد میں آکر چند لوگ مارے گئے یا پھر زخمی ہوئے ہیں لیکن صدر ٹرمپ بچ گئے صدر ٹرمپ کا بچنا ایک معجزہ ہے جو جدید بندوق کا…..حملہ آور ناکام ہوا شاید دنیا کی ٹرمپ کی ابھی ضرورت تھی جو امریکہ میں سفید فام اور رنگدار عوام میں خانہ جنگی پیدا کر پائے۔ جو انسانیت کا دشمن ہے کہ جن کا نظریہ سیاست نسل پرستی پر مبنی ہے جس میں انسانیت کا خون ہی خون بہتا ہوا نظر آتا ہے جس کو اب روکنا مشکل ہوچکا ہے۔ کہ صدر ٹرمپ پر قاتلانہ حملے کی وجہ سے ان کا ہمدردی ووٹ میں اضافے ہوچکا ہے۔ جو شاید اب آسانی سے امریکہ کا صدر منتخب ہوجائیں گے۔ چونکہ موصوف امریکہ میں نئے آباد کاروں کا دشمن ہے جس کی وجہ سے امریکی نسل پرست ناڑی ازم کے حامی صدر ٹرمپ کے پیروکار ہیں حالانکہ صدر ٹرمپ جرمن نسل سے تعلق رکھتے ہیں جن کے داد اور دادی جرمنی سے آکر دوبارہ امریکہ میں آباد ہوئے تھے۔ جو پیشے کے لحاظ سے حجام تھے۔ جن کے اندر جرمن نازی ازم کا خون لہرائیں مارتا ہوا نظر آتا ہے جن کے آبائو اجداد نے جرمنی اور یور میں ساٹھ لاکھ یہودی خانہ بدوش، کمیونسٹ اور ہم جنس پرست مار ڈالے تھے۔ جن کے ساتھ زائنسٹوں کا پرانا تعلق ہے جن کے اشارے پر جرمنی اور یورپ میں یہودیوں کو مار پیٹ کر ملک بدر کیا گیا تھا تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ فلسطین پر قابض اسرائیل نامی ریاست میں جا کر آبادہوں جو ہوا جس کی بنا پر آج صدیوں کے آباد فلسطین کے شہری آج دنیا بھر میں دربدر گھوم رہے ہیں جو وہاں ہیں ان کی زندگی اجیرن کر دی گئی ہے۔ اگر ٹرمپ دوبارہ صدر بن گیا تو فلسطینی عوام کا قتل عام میں مزید اضافہ ہوگا جو ٹرمپ کے نظریات میں شامل ہے کہ نسل پرستی کی آڑ میں انسانوں کا قتل عام کیا جائے۔ بہرحال امریکی صدور پر قاتلانہ حملے ایک تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ جس کی زد میں بعض آکر مارے گئے۔ بعض شدید زخمی ہوئے اور بعض مکمل طور پر بچ گئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ آباد کاروں کا ملک ہے کچھ پرانے اور کچھ نئے آباد کار ہیں جن کو صرف اور صرف آئین اور قانون نے جھکڑ رکھا ہے ورنہ اس ملک میں کسی بھی وقت خانہ جنگی جیسی ہولناک اور خوفناک جنگ چھڑ سکتی ہے جس میں صدور کے علاوہ، کروڑوں انسان لقمہ اجل بن سکتے ہیں جن کے آثار نظر آرہے ہیں کہ اگلے پانچ سالوں میں کیا ہوگا خدا بہتر جانتا ہے۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here