تعزیتی اجلاس رضی نیازی!!!

0
186
شمیم سیّد
شمیم سیّد

شیخ الاسلام ڈاکٹر علامہ محمد طاہر القادری نے رضی نیازی بھائی کے تعزیتی پروگرام میں خطاب کیا۔ آج میں کئی سال بعد اس شاندار مسجد غوث الاعظم میں آیا ہوں تو مجھے رضی نیازی دکھائی نہیں دے رہے، میرے ان کے تعلقات ایسے تھے کہ میں اس وقت اپنے جذبات بیان نہیں کر سکتا کہ وہ میرے جذبات کا محور تھے جس طرح انہوں نے اس مسجد کو تعمیر کیا۔ اللہ تعالیٰ کا نظام ہے کہ وہ دنیا میں انسان کو بطور امانت بھیجتا ہے بار بار قرآن میں اس کا ذکر التین کیساتھ آتا ہے۔ اب تمہیں یہاں ٹھہرنا ہے اس میں تمہارا عارضی قیام ہے اور اس عارضی قیام کیلئے تمہارے لیے عارضی ٹھکانہ ہے، یہ اصلی زندگی نہیں مستقل اور دائمی زندگی کیلئے اصل زندگی تو وہ ہے جہاں چند دن گزار کہ چلا جاتا ہے۔ یہ عارضی قیام کا جو زمانہ ہے اس کے پیچھے طویل مدت بہت نیچے جا کے جہاں سے اس کی ابتداء ہے۔ جہاں اس نے پلٹ کے جانا ہے۔ ہر ایک کو جانا ہے اپنے وطن عزیز کی طرف کوئی پہلے اور کوئی بعد میں جائیگا مگر دیکھنا یہ ہے کہ کون یہاں سے کامیاب ہو کر جا رہا ہے اور کون ناکام ہو کر جا رہا ہے۔ نیازی صاحب کا ہم سے بچھڑ جانا یہ غم کا دُکھ کا افسوس کا باعث ہے، مگر ان کا یہاں سے کامیاب ہو کر جانا مسرت کا باعث ہے۔ دنیا میں بہت سے لوگ آتے ہیں مگر کامیاب ہو کر بہت کم لوگ جاتے ہیں۔ میں ایک گنہگار انسان ہوں میری گواہی مالک کو معلوم ہے کہ وہ قبول فرمائیگا یا نہیں مگر میں یہ گواہی اس کے حضور میں گواہ ہوں کہ وہ کامیاب گئے ہیں اور ان کا شمار ان لوگوں میں ہے کہ جن کا ذکر اس آیة کریمہ کے آخری حصے میں ہے اس لئے میں نے رضی نیازی کیلئے یہ موضوع منتخب کیا ہے کہ ان کا مقامی حوالے سے نہ ذکر کیا جائے بلکہ قرآنی حوالے سے کیا جائے ان کی جگہ یہاں ہے اللہ رب العزت نے فرمایا سورة التین میں ان کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جس پر توجہ نہیں دلائی گئی۔ لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم” اس مقام کے تعین کا پہلا جُزیہ ہے جس میں ارشاد فرمایا ہم نے انسان کو بڑی احسن تران کیساتھ پیدا کیا ہے۔ وہ کیا ہے ایک اس کی ظاہری تخلیق ہے جسم کی اعضاء میں اعتدال بنایا قوت بنائی جسم کو خوبصورت کیا، متوازن کیا، چہرے پر ایک آنکھ نہیں بنائی توازن کیلئے ایک دائیں اور ایک بائیں۔ سماعت اس نے ڈالنی ہے، بصارت اس نے ڈالنی ہے، جسم کے ہر حصے کو متوازن بنایا ہے، کرۂ ارض پر جتنی بھی مخلوقات چلتی ہیں دو ٹانگوں والی چار ٹانگوں والی سب کو کمپیئر کریں روح زمین پر انسان سے زیادہ خوبصورت کسی کو نہیں بنایا۔ ظاہری خوبصورت بنایا اور باطن میں بھی خوبصورتی دی۔ شعور دیا، اچھے بُرے کی تمیز دی، نیک و بد کی صلاحیت دی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان سے بڑھ کر کوئی بھی نہیں ہو سکتا۔ ظاہری اور باطنی معنی دونوں ایک ہیں۔ روحانی اعتبار سے اللہ رب العزت فرماتے ہیں کہ میں نے اسے صفات الٰہیہ کا مظہر بنایا اب لباس کی توفیق ہے کہ وہ دنیا میں آکر اس کے لطف و کرم سے بے نیاز ہو جائے یا نیازی ہو جائے یہ اس کا کرم ہے کہ وہ کس کو چُنتا ہے جو بھٹک جاتا ہے وہ بے نیازی ہو جاتا ہے اور جو عمل کرتا ہے وہ نیازی ہو جاتا ہے۔ صفات الٰہیہ کا مظہر بنایا فرمایا جب ہم نے بہترین طریقے پر پیدا کر دیا تو پھر اس کا امتحان لیا تو پھر گھٹیا سے گھٹیا دنیا میں بھیج دیا۔ اسفلا صافلین” سب سے اعلیٰ بنایا اور سب سے ادنیٰ میں بھیج دیا۔ بنایا اس کو جنت کے باغوں کیلئے اور بھیجا دوزخ کیلئے۔ جنت کی صفات کیساتھ اور دوزخ کی صفات میں بھیج دیا۔ بنایا احوال جنت کیساتھ رکھ دیا احوال جہنم کیساتھ جہاں بنایا وہاں عجز، انکساری، محبت تھی جہاں بھیجا وہاں تکبر، بُغض، کینہ اور نفرت تھی۔ وہاں صفائی تھی نور تھا، اچھائی تھی یہاں برائی ہے ظلمت ہے تاریکی ہے گھر میں بھی ،رشتوں میں بھی حسد ہے، بغض ہے عداوتیں ہیں، مقابلے ہیں، ہر طرح کے ماحول میں ایک دوسرے کے پیچھے پڑے ہوتے ہیں۔ بنایا تھا احسن تقویم اور بھیج دیا اسفلا سافلین اس لیے امتحان کے بغیر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ کون جیت گیا اور کون ہار گیا۔ پھر آپ پوچھیں کہ ایسے ماحول میں کیوں بھیج دیا اس کا جواب یہ ہے کہ جب بنا دیا تو امتحان بھی لینا ہے۔ جب گریڈ اے میں پاس ہوتے ہیں تو اللہ کے مقربوں میں شامل ہو جاتے ہیں۔ میرا دل کہتا ہے اس وجہ سے نہیں کہ وہ میرے بھائی تھے میں نے دس بارہ سال ان کیساتھ گزارے ہیں میرا دل گواہی دیتا ہے کہ وہ مقربین میں شامل ہونگے۔ ان کے اعمال ان کی ریاضتیں ان کے مجاہدے ان کی استقامت، ان کا عشق رسولۖ، محبت اہل بیعت، ان کی تعظیم، ان کی انسانیت اللہ کے گھروں کو بنانا، آباد کرنا، اللہ کی راہ میں خرچ کرنا، غرباء و مساکین پر خرچ کرنا، اظہار بھی نہ کرنا، ایسی زندگی گزارنے والا مُقریبین میں نہیں ہوگا تو کہاں ہوگا۔ خوشی محسوس کرتے ہیں ان کے جانے پر دُکھی ہیں لیکن ان کے کامیاب ہو جانے پر اعلیٰ درجے میں کامیاب ہو جانے پر خوش ہیں۔ جس کو بنایا اور بھیجا اس کا نام کیا رکھا۔ انسان۔ لفظ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے سب کچھ دیا ہے۔ عربی کا لفظ ہے عربی کے جو الفاظ ہوتے ہیں۔ اسی روٹ ورلڈ جس کو مادہ بولتے ہیں۔ انسان کا لفظ انس سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے اس سے محبت ہو گئی۔ اُنس ہو گیا، محبت ہوگی جس کو محبت ہو جائے اس کو انسان کہتے ہین اس سے یہ مُراد نہیں کہ کس سے، بعض آئمہ نے کہا کہ انسان کا لفظ ناسیا سے نکلا ہے جس کو نسیان کہتے ہیں ناسیا کے معنی جو بھول جائے انسان کے دو معنی بن گئے ایک معنی بن گئے جس کو محبت ہو جائے وہ انسان دوسرا معنی جو بُھول جائے وہ انسان یاد رکھیں یہ دو معنی دو باتیں بہت اہمیت رکھتی ہیں جیسے محبت ہوتی ہے وہ بھولتا نہیں ہے اور جو بُھول جاتا ہے سمجھو اسے محبت نہیں ہے۔ جو محبت چکھ لیتا ہے وہ کیسے بھول سکتا ہے اب دو متضاد چیزیں ہیں ایک ہی وجود میں ایک ہی نفس میں انسان محبت والا ہے اور محبت کے معنی ہیں جسے محبت ہو جاتی ہے اسے ہر وقت یاد رکھتا ہے۔ انسان کے اندر جو چیز چُھپی ہوتی ہے وہ روح ہے، ایک محبت کرنے والا اور ایک بھول جانے والا۔ دونوں کی محبتیں جُدا جُدا ہیں جسم میں محبت کرتا ہے اس سے تعلق رکھت اہے روح جس سے محبت کرتی ہے اس کا جسم سے تعلق نہیں جسم محبت کرتا ہے مخلوق کیساتھ مال سے دولت سے بچوں سے بھائیوں سے، بہنوں سے، شہرت سے، جسم کی جوبھی چیز ہے وہ محبت کرتی ہے دنیا سے۔ روح چاہتی ہے خالق کی محبت انسان دو محبتوں کے درمیان سینڈ وچ بن گیا۔ جسم کو خلق اور روح کو خالق سے محبت ہوتی ہے۔ اگر بندے کوئی محبوب بیک وقت یاد رہیں تو محبت صادق ہے نا محبت ہے بلکہ ایسے بندے کو ہرجائی کہتے ہیں۔ محبت توحید مانگتی ہے شرک گوارہ نہیں کرتی محبت ایک محبوب رکھتی ہے اور اس ایک کے سواء نہ کسی کو تکتی ہے اور نہ کسی اور کو تکنے دیتی ہے۔ محبت غیرت ہے اور غیرت کو اعتکاف کہتے ہیں۔ محبت اگر خالق سے ہوگی تو خلق پیچھے رہ جائیگی اگر محبت خلق سے ہوگی تو خالق سے دُوری ہو جائیگی۔ اب وہ دیکھتا ہے کہ بندے تو ادھر جاتا ہے یا اُدھر جو لوگ دنیا میں آئیں اور دنیا میں رہتے رہتے دنیا کے ہو جائیں وہ ہار گئے اور جو لوگ دنیا میں آئیں دنیا میں رہیں اور پوری دنیا میں گزاریں مگر رہیں اس کے وہ کامیاب ہو گئے۔ نیازی صاحب اس امتحان میں کامیاب ہو گئے، انہوں نے دنیا بھی دین بھی دونوں میں کامیابی حاصل کی۔ کمائو ضرور مگر دنیا کے نہ ہو جائو۔ اللہ نے فرمایا ان میں کچھ لوگ ایسے ہونگے جو ایمان لائے اور عمل صالح کیا ، مگر دنیا ان کے تابع ہوگی۔ دل میں مجھے رکھے گی اور دنیا ہاتھ میں رکھیں گے۔ میں نے نیازی صاحب کو اس پیمانے پر پرکھا ہے اللہ پاک نے انہیں کامیاب کیا وہ جیت گئے۔ نیازی صاحب کیلئے دنیا ختم ہو گئی۔ اب خیر کی دنیا ہے۔ اس کے اجر کی دنیا شروع ہو جاتی ہے اس کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ اللہ تعالیٰ رضی نیازی کی ان خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے بھائیوں، بچوں عزیز و اقارب اور ان سے محبت کرنیو الوں کو صبر جمیل عطاء فرمائے اور رضی نیازی کو جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطاء فرمائے۔ آمین۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here