بات ہے ضمیر کی، امریکا ہو یا پاکستان! !!

0
11
کامل احمر

ابن بطوطہ نے جوان عمری میں تیس سال دوسرے ملکوں کی خاک چھانی، وہاں کی زبان رہن سہن آداب، اخلاق، علم اور اپنے آقائوں کے آگے سر تسلیم خم دیکھا۔ ایک چھوٹے سے ملک میں وہاں کے بادشاہ کا مہمان بنا دربار سجا تو بادشاہ نے ایک درباری کی طرف انگلی اٹھائی وہ باہر نکل کر آیا اسکے ہاتھ میں تیز چاقو تھا جو اس نے ہوا میں لہرایا اور جھک کر بادشاہ کے سامنے سر تسلیم خم کیا پھر چاقو گردن پر رکھ کر کچھ کہا جو میری سمجھ میں نہیں آیا اور تیزی کے ساتھ اس نے اپنا سر چاقو چلا کر تن سے علیحدہ کردیا۔ بادشاہ نے پوچھا کیا تم نے کہیں ایسا دیکھا ہے میں نے جواب دیا ہرگز نہیں کہیں بھی نہیں بادشاہ مسکرایا اور بولا، ہمارے یہ نوکر ہم سے اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہیں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں جگہ جگہ، وڈیرے چودھری اور اب آرمی جنرلز دکھائی دیتے ہیں جن کے ملازم، سہولت کار یہ کام کرنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ گردن کاٹ کر نہیں ضمیر بیچ کر اور اپنی بزدلی اور ضمیر فروشی کا پرچار کرتے ہیں۔ ضمیر فروشی کے لئے ہم نے لڑکپن میں بڑھا تھا۔ ”اگر غلط بات پر غصہ نہ آئے تو سمجھ لیں ضمیر سو رہا ہے اور دیکھ کر نہیں دیں تو ضمیر ڈھیٹ ہوچکا ہے اور غلط ہوتا دیکھ کر کہیں”مجھے کیا” تو ضمیر خارج ہے اور اسے کہتے ہیں بے ضمیری جو اب پاکستان کے ہر ادارے، مذہب سمیت میں بدرجہ اتم جگہ پا چکی ہے۔ میڈیا جو چالیس سال پہلے عوام کی آواز اور انکو شعور اور علم دینے کا باعث تھا بک چکا ہے یا بے ضمیر ہوچکا ہے۔ اگر آپ ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے تو سمجھ لیں آپ تین میں ہیں نہ تیرا میں آپ کا تعلق پاکستان میں آرمی جنرلز کے غلاموں یا ابن الوقت سیاست دانوں سے ہے۔ اور پاکستان تو کسی گنتی میں نہیں آتا۔ جس کے پاس دنیا کی چھٹے نمبر کی فوج ہے یعنی طاقت ہے لیکن اسکے جنرلز(FOR SALE) برائے فروخت رہے ہیں ہم ایسا کیوں لکھ رہے ہیں تاکہ ہمارا ضمیر دوسروں کے گھنائونے اور مالی مفاد کے کرتوتوں سے دور رہے آپ اگر کچھ نہیں کرسکتے تو وہ چڑیا بن سکتے ہیں جو ایک بڑی پھلیتی آگ کو بجھانے کے لئے جو نچ میں پانی بھر کر پھینک رہی ہے۔ اور اوپر کواّ بیٹھا ہنس رہا ہے۔ ان ہنسنے والوں کی مثال بے ضمیری کی طرح ہے اور چڑیا کی آگ بجھانے کی کوشش باضمیر مثال ہے۔ خود کو دیکھئے آپ کواّ بننا پسند کرینگے یا چڑیا۔ سوشل میڈیا آزاد ہے فیس بک پر آپ اپنی آواز بلند کرسکتے ہیں TIK TOKکھلا ہے کچھ بھی ڈال سکتے ہیں تاکہ آپ کا ضمیر زندہ رہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں اور یہ اس لئے نہیں ہو رہا کہ بچے کچے باضمیر لوگوں کو دوسرے بڑے میڈیا نے ڈرامے اور ایک طرف خبروں کے گھیرائو میں لے لیا ہے۔ کس ڈھٹائی سے جان نثار اور کبھی ہم میں اور کبھی تم میں بے غیرتی، لالچ، ڈھٹائی دیکھ سکتے ہیں دونوں ڈراموں کی لکھاری خواتین لگتی ہیں جو اسی بے ضمیر ماحول کی پیداوار ہیں۔ اور پھر اُسے پروموٹ کرنے کے لئے لکھا جاتا ہے40ملین لوگوں نے دیکھا ان ڈراموں میں تھوڑی بہت ایک ماحول کی عکاسی تو ہے لیکن ضروری نہیں کہ اُسے اسکرین پر لایا جائے اور لکھاری خاص کر جان نثار کے اسکرپٹ کو طویل دینے کے لئے دو بدمعاش کردار لے کر آئے جو بڑی ڈھٹائی سے کسی کے گھر میں گھس کر الزام تراشی کرتے ہیں اور عام بات یہ کہ مرکزی کردار خاموش رہتا ہے۔ یہ ایک واہیات حد سے زیادہ واہیات سیریل ہے یہ بتاتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں اور بے ضمیری کی ادنیٰ مثال ہے ہم اس واہیات ڈرامے پر لکھ کر اصل موضوع سے ہٹنا نہیں چاہتے اور معذرت خواہ ہیں کہ اگر آپ اپنے ضمیر کو زندہ رکھیں اور اردگرد نظر دوڑائیں تو یہ ہی خواہش کرینگے اللہ اگر تو ظلم بند نہیں کرسکتا تو ہمیں اٹھا لے۔
فلم شاہجہان میں مجروح سلطان پوری نے یہ گیت لکھا تھا
”جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کر کیا کرینگے” یہ فلم1946میں بنی تھی اور اس میں مجروح سلطان پوری کے گانوں نے دھوم مچا دی تھی پورے ہندوستان میں جی چاہتا ہے ہندوستانی فلموں کے گانوں سے وابستہ شعراء اور موسیقار کا ذکر کرتے رہیں تاکہ آج کل جو کچھ پاکستان اور امریکہ اور اسرائیل کے ذریعے ہو رہا ہے اس سے نجات ملے۔ گانے میں تو عشق میں ناکامی کا رونا رویا گیا تھا۔ لیکن امریکہ کی پشت پناہی میں اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ جنگ اور ظلم کی تاریخ میں کالے جلّی حروف سے لکھا جائے گا۔ صدر بائیڈین اور صدارتی امیدوار کمالا ہیرس جوش وخروش سے امریکی شہریوں کی مرضی کے خلاف اسرائیل کے جنگی عزائم کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ کمالہ ہیرس سے جبCBSکے اس ہفتے کے پروگرام60 MINUTESمیں پوچھا گیا تھا جس کے جواب میں کمالہ ہیرس نے نہایت ڈھٹائی کے ساتھ اپنے آقا صدر بائیڈین کی اسرائیل کے لئے کہی بات کو دہرایا تھا کہ امریکہ ہر حال میں اسرائیل کی مالی امداد کرتا رہے گا۔ اور اس سوال پر کہ پھر اسرائیل امریکہ کی جنگ بندی کی خلاف ورزی کیوں کر رہا ہے۔ جواب تھا کہ یہ انکا داخلی معاملہ ہے کمالہ ہیرس کو معلوم نہیں کہ نتن یاہو نسل کشی کی آڑ میں کہہ رہا ہے جنگ اور محبت میں ہر چیز جائز ہے” اور دنیا جو کہہ رہی ہے اور نتن یاہو کو جنگی مجرم ٹہرا رہی ہے غلط ہے۔ امریکہ اتنا گرایا جاسکتا ہے کہ دنیا میں اخلاقی طور پر بدترین ملک بن جائے ہمارا ضمیر اس بات سے مختلف کہتا ہے کہ یہ سب بکواس ہے۔ کمالہ ہیرس کو صدارتی امیدوار بنا کر جتانے کی سازش بھی اسرائیل کی ہے امریکی عوام بے بس ہیں۔ اس الیکشن میں کیا ہونے جارہا ہے۔5نومبر کو معلوم ہوگا۔90فیصد پول خود ساختہ طور پر کمالہ کو ٹرمپ سے آگے بتا رہے ہیں جو بالکل غلط ہے کہ یہ پول بنانے والے بھی ضمیر فروشی کر رہے ہیں۔ ایک صدارتی مورخ نے پیشن گوئی کی ہے جن کی پیشن گوئیاں اس سے پہلے10میں سے نو دفعہ درست ثابت ہوچکی ہیں اور دعویٰ ہے کہ کمالہ ہیرس صدر بنیگی ہم بتاتے چلیں اگر الیکشن میں دھاندلی(کمپیوٹر) نہ ہوئی تو ٹرمپ صدر بنینگے یہ ہماری گیارہویں پیش گوئی ہے جس میں دوبار ایسا نہیں ہوا ہے۔
آج بھی کچھ اخبارات اور میڈیا صدر بائیڈین کی جان نشین کمالہ ہیرس کے لئے غضبناک خبریں دے رہا ہے۔ ستمبر25کے نیویار ک پوسٹ نے اپنے ٹائیٹل پر دنیا کو آگ کے گولے کی شکل میں دکھایا ہے اس کے ایک جانب ان دونوں کی تصاویر ہیں کہ یہ دونوں اس کے ذمہ دار ہیں اور ایک محب وطن باضمیر امریکن کے خیال میں بھی ایسا ہی ہے۔ دیکھا جائے تو ان کے پیچھے جنگ کرانے والی بڑی لابی ہے جو مال بنا رہی ہے اور اپنے ضمیر کے خلاف ڈالرز بنانے پر لگی ہے اور اسی لابی نے ٹرمپ کی مخالفت کی تھی اور کر رہی ہے۔
1961میں امریکہ کے34ویں صدر آئزن ہاور نے جو جنرل تھے اور دوسری جنگ عظیم کو لیڈ کر رہے تھے کہا تھا۔ ”امن اور انصاف ایک ہی سکے کے دوزخ ہیں۔
”امریکہ میں ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے لئے یہ الفاظ تھے”مستقبل میں یہ امریکہ اور دنیا کے لئے خطرناک نتائج پیدا کرے گا اور آج پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ اسرائیل امریکہ کی شے پر پہلے غزہ اس کے بات لبنان اور پھر شام میں گھس چکا ہے۔ انسانی جانوں کی اُسے پرواہ نہیں حماس اور حزب اللہ کو ٹھکانے لگانے کے بعد بھی وہ یہ ہی بکواس کر رہا ہے اس خطے کی نئی تاریخ لکھی جارہی ہے اور ان ملکوں نے امن پسند لوگوں کو گھروں سے بے گھر کرکے دعوے کر رہا ہے۔٧ اکتوبر2023کے حماس کے جھوٹے حملے کی آڑ میں اسے روکنے والا کوئی نہیں ایک اسرائیلی کا کہنا ہے نتن یاہو رجیم یہودی نہیںZIONIST(صیحونی) ہے لیکن یہ صیحونی نتن یاہو کی اس درندگی سے خوش ہیں جن کے پاس دوہری شہریت ہے امریکی اور اسرائیل کی ایک اور بات جو صدر آئزں پاور نے کہی تھی”جنگ کسی طور پر بھی امن پسند دنیا کے لئے خطرہ ہے” امریکہ کے سیاست دان اسرائیل کو ہر طرح کی مالی اور ہتھیاروں کی امداد لے کر ضمیر فروشی کی تاریخ لکھ چکے ہیں۔ اگر یہ غلط ہے تو یہ ہی کہا جاسکتا ہے ”صدر بش کا نیا ورلڈ آرڈر یہ ہی ہے کہ مسلمانوں کو اتنا پسپہ کر دو کہ وہ چلنے کے قابل نہ رہیں۔ کیا یہ تاریخ دہرائی جارہی ہے؟ لیکن ہمارا کہنا ہے کہ وہ لوگ جو اپنی سہولتوں کو عزیز سمجھتے ہیں اپنے پرنسپل پر جلد ہی دونوں سے ہاتھ خالی کرینگے” کیا آج بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ ویسٹرنCIVILIZATIONاچھی ہے آپ تاریخ کا یہ رخ دیکھتے چلیں جو اب مل جائے گا۔
٭٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here