پاکستانی زبوں
حالی کا شکار !!!
پاکستان کے سیاسی اور معاشی بحرانوں میں مزید اضافہ ہوا ہے، وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیر قیادت حکومت نے اپنے پیشروؤں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ذرائع ابلاغ، غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) اور سیاسی مخالفین پر دباؤ ڈالا۔ حکام نے پرامن ناقدین کو ڈرانے کے لیے انسدادِ دہشت گردی اور بغاوت کے ظالمانہ قوانین کا استعمال کیا، پاکستان کے سیاسی اور معاشی بحرانوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ حکام نے پرامن ناقدین کو ڈرانے کے لیے انسدادِ دہشت گردی اور بغاوت کے ظالمانہ قوانین کا استعمال کیا۔مذہبی اقلیتوں کے خلاف مذہب کی بے حرمتی سے متعلق تشدد میں اضافہ ہوا جس کی جْزوی وجہ حکومتی ظلم و ستم اور امتیازی قوانین ہیں۔ اسلامی عسکریت پسندوں کے حملوں، خاص طور پر تحریکِ طالبان پاکستان( ٹی ٹی پی) اور دولتِ اسلامی صوبہ خراسان( آئی ایس کے پی) نے قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں اور مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنایا جس کے باعث 2023 میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔غربت، مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کے ساتھ ساتھ، پاکستان کو معاشی بحران بھگتنا پڑا جس کا شمار ملکی تاریخ کے بدترین معاشی بحرانوں میں ہوتا ہے جس سے لاکھوں لوگوں کی صحت، خوراک اور مناسب معیار ِزندگی کے حقوق پر شدید منفی اثرات مرتب ہوئے۔ کفایت شعاری اور مناسب معاوضہ جیسے اقدامات کے بغیر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ( آئی ایم ایف) کے اصرار پرسبسڈی کے خاتمے سے کم آمدنی والے طبقوں کے لیے اضافی مشکلات پیدا ہوئیں۔ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے انتہائی غیر محفوظ رہا اور یہاں درجہ حرارت کی شرح عالمی اوسط سے کافی زیادہ ہے جس کی وجہ سے شدید موسمیاتی واقعات تواتر سے پیش آتے ہیں۔ ادارہِ شماریات کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگست 2024 میں سالانہ بنیادوں پر کنزیومر پرائس انڈیکس گذشتہ مہینے میں 11.1 فیصد تھی، یوں ماہانہ مہنگائی کی شرح 0.39 فیصد رہی جب کہ اگست 2023 میں مہنگائی کی شرح 27.4 فیصد تھی۔اس طرح مالی سال 2024 کے پہلے دو ماہ جولائی اور اگست کے دوران اوسط مہنگائی 10.36 فیصد رہی جو گذشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران 27.84 فیصد تھی۔ادارہِ شماریات کا کہنا ہے کہ اگست میں شہری علاقوں میں مہنگائی 0.27 اور دیہی علاقوں میں 0.55 فیصد بڑھی جس کے بعد اگست میں شہروں میں مہنگائی کی شرح 11.71 فیصد اور دیہات میں یہ شرح 6.73 فیصد ریکارڈ کی گئی۔مقامی کرنسی کی قدر میں کمی، آسمان کو چھوتی مہنگائی، اور مناسب معاوضہ جیسے اقدامات کے بغیر بجلی اور ایندھن پر دی جانے والی سبسڈی کے خاتمے نے پاکستان میں بہت سے لوگوں کے لیے اپنے معاشی و سماجی حقوق کا حصول مشکل بنا دیا۔ پاکستان کے مرکزی بینک کے زرِمبادلہ کے ذخائر جنوری میں کم ہو کر 3 ارب امریکی ڈالر کی تاریخی کم ترین سطح پر آگئے۔ یہ رقم تین ہفتوں کی درآمدات کی ادائیگی کیلئے بھی نا کافی تھی۔ جولائی میں پاکستان نے آئی ایم ایف کے ساتھ 3 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا جس کے تحت حکومت نے توانائی اور ایندھن کی سبسڈی ختم کرنے، منڈی پر مبنی شرح مبادلہ رائج کرنے اور ٹیکسوں میں اضافہ کرنے کی ذمہ داری لی۔ اس کے نتیجے میں بجلی کے بڑھتے بِلوں، مہنگائی، اور خوراک کی قلت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔معاشی بحران نے ملک کو اْس وقت اپنی لپیٹ میں لیا جب لوگ پہلے سے 2022 کے سیلاب کے تباہ کن معاشی اثرات کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔ 2018 میں پاکستان کے 23 کروڑ افراد میں سے تقریباً 37 فیصد کو غذائی عدمِ تحفظ کا سامنا تھا، اس کے باوجود صرف 89 لاکھ خاندانوں کو مہنگائی کے اثرات کو کم کرنے کیلئے امداد ملی۔ ملک میں اس وقت بہتری کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں ، حکومت اور اپوزیشن جماعتوں میں محاذ آرائی میں مستقبل قریب میں کمی کا کوئی امکان نہیں ہے ، پی ٹی آئی نے وفاق پر دھاوا بولنے کے بعد ایک مرتبہ پھر احتجاجی تحریک کو جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے جس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ جب تک عمران خان نہیں کہیں گے جلسوں اور احتجاجوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا، اپنے کیس کی سماعت کے دوران عمران خان نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے ہمیں دھوکہ دیا ہے جس کے بعد حکومت یا فوج سے مذاکرات کا کوئی امکان نہیں بنتا ہے جس کے بعد سے ملک میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجوں اورمظاہروں کا سلسلہ جاری ہے جس میں کوئی کمی واقع نہیں ہو رہی ہے ، حال ہی میں کراچی ائیرپورٹ کے باہر ہوئے خودکش دھماکے نے ملک میں امن وامان کی صورتحال کو ایک مرتبہ پھر متاثر کیا ہے جس سے حالات کے مستقبل قریب میں معمول پر آنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا ہے۔
٭٭٭