ہم پاکستانی قوم بے شک ایک عجیب اور دلچسپ قوم ہیں، اور ہمارے مزاج میں جو تضادات ہیں، وہ ہماری روزمرہ زندگی کا حصہ ہیں۔ ایک طرف ہم دنیا کے سب سے زیادہ مہمان نواز لوگوں میں شمار ہوتے ہیں، تو دوسری طرف ہم سیاسی بحث میں تمام مروت کے پہلو نظر انداز کر دیتے ہیں۔دوسروں کو ہم ٹریفک کی سرخ بتی پر انتہائی احتیاط کرنے کا مشورہ د یتے ہیں مگر خود ایسے گزر جاتے ہیں جیسے دنیا میں ٹریفک کے اصول بدل گئے ہوں اور اب سبز کی جگہ سرخ کا مطلب ہے گزر جا۔ہمارا مزاج ایسا ہے کہ ہمیں ہر بات میں مزاح کا پہلو نظر آتا ہے۔ چاہے حالات کتنے بھی مشکل کیوں نہ ہوں، ہم ان میں سے ہنسنے کا موقع ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ مثلا ہمارا ملک بدترین سیاسی حالات سے گزر رہا ہے اور ہم سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے لیے طنز و مزاح اور تنقید کا ایک ایسا سلسلہ شروع کیے ہوئے ہیں جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ہماری عجیب باتوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم اکثر عوامی مقامات پر قانون کو توڑتے ہیں، لیکن اگر کسی نے ہمیں ٹوکا تو فورا قوم پرستی کا جھنڈا اٹھا لیتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے حالیہ احتجاجوں کی کڑی بھی انہی معاملات سے ملی ہوئی نظر اتی ہے جہاں اج کل پختون کارڈ کھیلا جا رہا ہے اگر ہمارے روزمرہ کے موضوعات کی بات کی جائے تو “سیاسی تجزیہ” ہمارا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ چاہے وہ گلی کا کوئی دکاندار ہو یا یونیورسٹی کا پروفیسر، ہر شخص آپ کو ملکی سیاست پر ایک ماہر کی طرح تبصرہ کرتے نظر آئے گا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اکثر تبصرہ کرنے والوں کو خود اپنی گفتگو کا اندازہ نہیں ہوتا، لیکن پھر بھی وہ اسے پورے وثوق سے بیان کرتے ہیں مگر حیرت کی بات یہ ہوتی ہے کہ یہ تمام سیاسی تجزیے اپنی اپنی پسندیدہ جماعت کے ان تمام کرتوتوں کا دفاع کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہوتے ہیں جن کا ان سیاسی رہنماں کے ذہنوں میں خیال بھی جنم نہیں لیتا۔ہماری عجیب فطرت کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ ہم لائن میں لگنے کا تصور ہی نہیں کرتے۔ چاہے بینک ہو، بس کا اسٹاپ ہو، یا کہیں اور، ہم لائن میں لگنے کو اپنی توہین سمجھتے ہیں بلکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ لائن میں لگنا تو “عام لوگوں” کا کام ہے، اور ہم خاص ہیں، لہٰذا ہمیں فورا آگے جانا چاہئے۔ ایسی صورتحال پاکستان کے سیاسی جماعتوں میں بھی نظر آتی ہے جو کارکردگی کی لائن میں کھڑا رہنے کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کے در پر زور زور سے دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں کہ جناب ہم حاضر ہیں ہم کو اگے لائیے اور اپنا چورن ہمارے ذریعے بیچیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر ہماری قوم کے دلچسپ پہلو اور بھی نمایاں ہو جاتے ہیں۔ نکاح کی تقریب میں لوگوں کو جلدی ہوتی ہے کہ جلدی سے رخصتی ہو جائے، لیکن ولیمے کی تقریب میں وہی لوگ کھانے کے انتظار میں ایسے بیٹھتے ہیں جیسے دنیا کی آخری دعوت ہو رہی ہو۔ اور جب کھانا لگتا ہے تو پورا ہجوم میز پر اس طرح حملہ آور ہوتا ہے جیسے پہلی دفعہ کھانا دیکھ رہے ہوں اور یہی صورتحال ہمارے سرکاری عہدوں پر براجمان ہونے والے سرکاری افسران کی ہوتی ہے جیسے وہ اپنی زندگی میں پہلی بار افسر بن تو گئے ہیں مگر اب اس کو تا قیامت برقرار رکھنے کی خواہش دل میں پال لیتے ہیں۔ ان عہدوں پر بیٹھ کر یہ اختیارات کا استعمال ایسے کرتے ہیں جیسے واقعی کل ان کے اختیارات پر پابندی لگ جائے گی۔پاکستانی ایک ایسی قوم ہیں جو اپنی عجیب و غریب عادات اور تضادات کے باوجود ہمیشہ ہنستی مسکراتی رہتی ہے، اور شاید یہی ہمارا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔
٭٭٭