فکرِ بے ستون: معجز فن!!!

0
86
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

ڈاکٹر علامہ اقبال نے کہا تھا معجز فن کی خونِ جگر سے ہے نمود- میر تقی میر بھی فرما گئے کہ جب تنِ شاعر میں ڈھیروں لہو جلتا ہے تو تب جا کے کہیں مصرعِ تر ہوتا ہے۔ قدر پاروی صاحب کا تعلق بھارت سے ہے اور آپ ایک کہنہ مشق اور قادرالکلام شاعر اور نباضِ عصر ہیں۔ انہوں نے کمالِ شفقت سے اپنا شعری مجموعہ فکرِ بے ستون بھیجا ہے۔ کتاب غزلیات پر مبنی ہے۔ اِن غزلیات میں اردو حروفِ تہجی کے پہلے حرف الف کو حذف کیا گیا ہے۔ کئی قطعات میں ب سے ے تک کے کچھ حروف کو حذف کیا گیا ہے گویا یہ ایسا مجموع اشعار ہے جو فنی اعتبار سے بقولِ آتش شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا اظہار ہے۔ محاوراتی زبان میں بے نطق سنانا غیر معیوب کے مترادف ہے جبکہ شاعری میں بے نقط کہنا کمالِ فن اور شہکارِ اسلوب ہے۔ یہ شاعری میں کاریگری ہے۔ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
انگریزی شاعری میں اس قسم کی صنف(Craftmanship)میں Swift کا بڑا نام ہے۔ ان کی کتاب The Rape of the Lock انگریزی شاعری کا شہکار ہے۔ قدر پاروی نے اِن غزلیات میں نہ صرف جانکاری بلکہ مرصع سازی کے کرشمے دکھائے ہیں۔ جیسے ایک جوہری ہیروں کو مہارتِ فن سے تاجِ شاہی کی زینت بنا دیتا ہے اور مصور رنگوں سے نقش و نگار ہویدا کر کے بزمِ مہ رخاں سجا دیتا ہے تو اِسی طرح جنابِ قدر پاروی نے الف سے ماورا الفاظ کی مالا پرو کر فکرِ بے ستون کو ستونِ فکر بنا دیا ہے۔ مرزا غالب نے کہا تھا!
سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہئے
غزل وجدانی برجستگی کا نام ہے۔ یہ آوازِ غیبی ہے اِسی لیے فارسی کے عظیم شاعر حافظ شیرازی کو لسان الغیب کہا جاتا ہے اور مرزا غالب کا بھی دعوی ہے!
آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے
اِس قسم کے اسلوبِ شعر کو تنقید و تنقیص کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے اور اِس اسلوب ( diction) کو ذہنی کاوش اور کاریگری گردانا جاتا ہے جس سے شعر کی فطری سلاست و بلاغت پر حرف آتا ہے ۔ لیکن ایسی کاوش کی داد دینا اِس لیے ضروری ہے کہ کمالِ نقد و نظر اگر شعر میں بحال رہے تو اِسے معجز فن ہی کہا جا سکتا ہے۔ یہ کارِ صناعی قسمتِ ہر کس و ناکس نہیں۔ مرزا رفیع الدین سودا اور ابراہیم ذوق بھی شاعری میں صناعی اور زبان دانی پر نازاں تھے۔ مرزا دبیر نے اِس اسلوبِ شعر کو حدِ کمال تک پہنچایا۔ کئی ایسے قطعات کہے جن کے الفاظ میں نقاط اوپر اور کئی الفاظ کے نقاط نیچے ہیں۔ یہ فن کاری اور حرف نگاری کسی ادبی معجزے سے کم نہیں۔قدر پاروی کی اِس ادبی فنکاری کی قدر کرنا ان کی ریاضتِ فن کا اعتراف ہے۔ اِن غزلیات میں محاوارات، تشبیہات اور تلمیحات کا برجستہ استعمال ان کے فنِ شاعری کا طر امتیاز ہے۔اسلوبِ بیان کی جدت کے علاوہ اسلوب کے محدود سانچے میں جذبات و احساسات اور افکار کو روانی سے ڈھالنا ان کے استادانہ رنگ و آہنگ کا کرشمہ ہے۔ عصری رجحانات اور موضوعات کو جس قرینے اور سلیقے سے آپ نے بیان کیا ہے اس میں آپ کو یدِ طولی حاصل ہے۔ صوتی پیکر میں غنائیت برقرار رکھنا کارے کردی کے مترادف ہے۔ سماجی مسائل پر ان کی گہری نظر ہے گویا ان کی شاعری خاکسترِ جاں میں رقصِ شرر اور شبِ تیرہ و تاریک میں چراغِ طور ہے۔ دید بینا ہے۔ آپ کے کلام میں رومانوی اشعار تقاضائے فطرت ہیں لیکن انسانی مسائل پر آپ کی عقابی نظر نے آپ کی شاعری کو چار چاند لگا دئیے ہیں۔ یہ شاعری دو آتشہ ہے۔ اسلوبِ فن کا معجزہ اور انقلابِ زندگی کا نقارہ۔ دو رومانوی شعر سنیے اور سر دھنیے
جو زخم ہے وہ مرے دل پہ تو رقم کر دے
بہت دنوں سے جو سوکھی ہے چشم نم کر دے
ہونٹوں پہ کِھل رہے ہیں محبت کے کچھ کنول
شیریں دہن سے سب کے پسندیدہ ہو گئے
قدر پاروی صاحب کے کلام میں جدت و حدت کا سنگم ان کو حلق ادب میں ممتاز مقام پر متمکن کرتا ہے۔ ان کا ایک شعر ملاحظہ ہو جس کا پہلا مصرع رومانوی اور دوسرا مصرع فکری ہے اور یہ التزام و انصرام کسبی نہیں بلکہ وہبی و وجدانی ہے جو زبان و بیان کا کرشمہ ہے
پھول جب ہیں تو پھر دل میں چبھن رکھتے ہیں
منزلِ فکر میں کچھ روئے سخن رکھتے ہیں
میری نظر میں وہ شاعری چشمِ بینا نہیں، چشمِ نرگس کی طرح بے بصارت و بے بصیرت ہے جس میں مظلوموں، مقہور وں ، غریبوں ، مسکینوں ، بیواں ، مجبوروں ، بیکسوں اور یتیموں کا درد نہ ہو۔ وہ شاعری نہیں بلکہ الفاظ کی جادو گری ہے۔ مجھے جس بات نے جنابِ قدر پاروی کی شاعری کی طرف راغب کیا وہ ان کی استادانہ مرصع نگاری کے علاوہ ان کی شاعری میں ستم کاروں اور زور و زر کے پرستاروں کے خلاف احتجاج ملتا ہے۔ کہتے ہیں
چلوں جس سمت بھی ، پہلے تو بس تضحیک ملتی ہے
ہمیں تب دستِ غربت پر کہیں کچھ بھیک ملتی ہے
ایک غزل میں اِس مقام سے ایک قدم آگے نظر آتے ہیں ۔ یہ اس مقام کی طرف اشارہ ہے جس پر امام حسین نظر آتے ہیں اور ان کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے آواز ِ حق بلند کرتے عمارِ یاسر ، منصور اور سرمد نظر آتے ہیں ۔ قدر پاروی کا زندہ و تابندہ و پایندہ شعر سنیے اور اِسے حرزِ جاں اور وطیرہ و وظیف زندگی بنائیے
دیکھ لو حق کے لیے سر بھی کٹے، ظلم سہے
تیر و نیزہ سے ہے چھلنی وہ بدن رکھتے ہیں
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here