ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک سنہرا کردار ہے۔جس بات کو انکے سیاسی مخالفین نے بھی تسلیم کیا۔ان کے بعد آنے والے کئی سیاستدانوں نے بھٹو بننے کی ناکام کوشش کی۔انکی زندگی اور انکی شہادت کے بعد آج43برس بیت جانے کے بعد بھی وہ شخص آج بھی ہمارے دلوں میں روز اول کی طرح زندہ ہے جو پاکستان کے متعلق اس دور اندیش رہنما نے پھانسی گھاٹ کی کال کوٹھڑی میں بیٹھ کر جو پیش گویاں کیں تھیں وہ آج تک ایک ایک کرکے سچ ثابت ہوئیں۔تصنع اور بناوٹ سے مبرا ذوالفقار علی بھٹو عوام سے اس ملک پاکستان سے جتنی محبت کرتا تھا کہ نہ صرف اپنی جان کی قربانی دی بلکہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسکے بچوں کی جانیں بھی خطرے میں تھیں پیچھے نہیں ہٹا۔ اس وقت کا امریکی وزیر خارجہ بھٹو سے ملکر جاتے ہوئے کہہ گیا تھا۔We will make out example of youاور بھٹو کے اپنے وزیر پیداوار رفیع رضا نے بھٹو صاحب کو بتایا تھا کہ یہ دھمکی صرف آپ کیلئے نہیں یہ آپکا خاندان صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائیگا۔اور وہی ہوا کپ ایک ایک کرکے شاہنواز ،مرتضیٰ اور آخر میں انکی پیاری بیٹی محترمہ بینظیر بھٹو کو لیاقت باغ کے قتل گاہ میدان چند گز اس پھانسی گھاٹ کے پاس جہاں انکے عظیم والد کو رات کے اندھیرے میں پھانسی دی گئی تھی۔انکی راج دلاری دختر کو بزدلوں سے سازش کرکے گیڈروں نے گھیر کر شہید کردیا۔اللہ کا عذاب نازل ہو قاتلوں میں سرغنہ مشرف مردود نے فوراً حکم دیا کہ قتل گاہ کے میدان اور سڑکوں کو ٹینکروں کے ذریعے دھو دیا جائے تاکہ کوئی ثبوت نہ رہے۔جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کے تختہ دار کو مسمار کرکے قاتلوں نے سمجھا تھا کہ اگر تختہ دار نہیں رہا تو لوگ بھٹو کو بھول جائیں گے۔ لیکن کیا ہوا آج بھی پاکستان کے مزدور اور ہاری کے دلوں میں بھٹو کی یادگار موجود ہے۔غاصبوں نے لاکھ کوششیں کیں لیکن بھٹو کی یاد آج بھی ان چھوٹے مکانوں میں جو جام شورو میں دریا سندھ کے کناروں پر ذوالفقار علی بھٹو نے پیدا کالونی کے نام میں نہ صرف سندھ بلکہ دوسرے صوبوں میں تعمیر کروا کر دیئے تھے۔وہاں سے آواز آج بھی آرہی ہے کہ ”زندہ ہے بھٹو زندہ ہے”
فیض احمد فیض کہہ گیا تھا
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم
جو چلے تو جاں سے گزر گئے
کرو کج جبیں پہ سر فکن
میرے قاتلوں کو گماں نہ ہو
کہ غرور عشق کا بانکپن
پس مرگ ہم نے بھلا دیا
مرے چارہ گر کو نوید ہم
صف دشمناں کو خبر کرو
کہ جو قرض رکھتے تھے جان پر
وہ حساب آج چکا دیا
43برس بعد بھی اسٹیبلشمنٹ کااقتدار میں لایا ہوا لاڈلا وزیراعظم اپنے کارکنوں کو اسلام آباد میں خطاب کرتے ہوئے بھٹو کیخلاف سازش کی بات کرکے ساری زندگی بھٹو کیخلاف بات کرنے والا شخص دائیں بازو کی سیاست کرنے والا شخص بھٹو کی مظلومیت اور شہادت کا رونا رو رہا ہے۔چاہے یہ مگر مچھ کے آنسو ہی کیوں نہ ہوں یہ ثبوت کافی ہے بھٹو کی سیاسی سوچ کے فتح کے اعلان کا آج پاکستان کا ایک ایک سیاستدان سیاسی جماعت کے سربراہان نے تسلیم کرلیا ہے کہ بھٹو کی جدوجہد ملکی سالمیت، ترقی اور عوامی حقوق کی جدوجہد تھی۔بھٹو کو آپشن دیا گیا تھا کہ ملک بدر ہو جائو جان خلاصی ہو جائیگی لیکن نہیں۔ انکا تاریخی جملہ آج بھی فضا میں گونج رہا ہے کہ میں اپنی مٹی کو چھوڑ کر نہ جائونگا۔میں یہی رہونگا میں یہیں مروں گا لیکن اپنے وطن کو چھوڑ کر نہ جائونگا۔مجھے جسمانی طور پر تم مار بھی دو لیکن میں تاریخ میں زندہ رہونگا اور اس عظیم لیڈر کا ایک ایک حرف سچ ثابت ہوا۔جب تک پاکستان رہیگا دنیا رہیگی ذوالفقار علی بھٹو کی جدوجہد اور قربانی کی داستانیں آنے والی نسلیں اپنے بڑوں بزرگوں سے سنتے آئیں گی۔یہ سامراجی قوتوں اور ان کی ایجنٹوں اور ملکی غدار طاقتوں سے بھٹو کا انتقام ہے۔جب تک سورج چاند رہیگا بھٹو تیرا نام رہیگا۔
٭٭٭