فرمان نبوی ہے کہ یہ غم خواری کا مہینہ ہے رمضان المبارک میں ہم روزے بھی رکھتے ہیں نمازوں کی بھی پابندی کرتے ہیں نماز تراویح کا اہتمام بھی کرتے ہیں قرآن پاک کی تلاوت بھی عام مہینوں سے زیادہ کرتے ہیں زکوة جیسا اہم فریضہ بھی اسی مہینے ادا کرتے ہیں۔افطاری اور کھانا مساجد میں اہتمام کے ساتھ بھجواتے ہیں۔بلاشبہ یہ بہت بڑا کام ہے بلکہ سارے ہی کام اپنے ستر گنا ثواب کے ساتھ ہمارے لئے آخرت کا ذخیرہ ہیں۔اور اس میں کوئی دو رائے نہیں رمضان کا روزہ تلاوت قرآن، نماز وتراویح کا اہتمام عبادت کے تسلسل کی وجہ سے ہماری اندر نرمی کا پیدا ہونا ایک قدرتی امر ہے۔
ماشاء اللہ طبیعت بھی خیر کے کاموں کی طرف مائل ہوجاتی ہے۔تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں دلوں کی نرمی اور طبیعت کا خیر کی طرف دھیان کی وجہ سے ہمیں پورا فائدہ اٹھانا چاہئے۔اپنے اردگرد نظر دواڑئیں سب سے پہلے ہمارے خاندان کے قریبی لوگ دیکھیں۔ یقیناً ہمارے خاندان کے کچھ لوگ کم آمدنی رکھتے ہوں گے وہ لوگ اپنی کم آمدنی کے باعث اس ماہ مقدس میں نعمتوں سے محروم ہیں۔ہمارے دستر خوان تو طرح طرح کی نعمتوں سے سجے ہوں اور وہ بچارے دال روٹی کے محتاج ہوں تو ہمیں اپنی اس نرمی کا فائدہ اٹھا کر آگے بڑھ کر ان کی غم خواری کرنا چاہئے۔ ضروری نہیں کہ ہم ان کے دستر خوان بھی سجا دیں بلکہ فرمان نبوی ہے اگر ایک کھجور ایک گھونٹ پانی بھی کسی روزہ دار کو پہنچا دیا تو بھی ثواب مل جائے گا۔اگر توفیق زیادہ ہے تو پورے مہینے کا راشن ڈلوا دیں۔اگر ایسا ممکن نہیں تو جو غریب لوگ روٹی مشکل سے پوری کرتے ہیں وہ عید پر اپنے بچوں کے کپڑے کیسے خریدیں گے کم ازکم ان کے بچوں کے نئے کپڑے خرید کر ایک ہفتہ پہلے پہنچا دیں۔تاکہ بچوں کو تسلی ہوجائے کہ ہمارے پاس کپڑے ہیں۔
غم خواری کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کے غم بانٹے جائیںاور خاص طور پر صاحب حیثیت مسلمانوں کے لئے یہ مہینہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔اگر ہم اور ہماری نمازیں ہماری نیکیاں ہمیں اس راہ پر نہیں ڈالتی۔تو گویا کہ ہم نے اس ماہ مقدس کے مقصد کو سمجھا ہی نہیں۔خالی عبادت کیلئے تو فرشتے قطار در قطار عبادت میں مصروف ہیں۔مگر ہمیں درد دل دے کر پیدا کیا گیا ہے تاکہ ہم اپنی عبادتوں کے ساتھ ساتھ اس مقصد عبادت کو بھی سمجھیں جس کیلئے اللہ پاک نے ہمیں پیدا کیا ہے کہ عبادت کے ساتھ ساتھ غم خواری بھی ہو۔
٭٭٭