تجزیہ: رانا رمضان
واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل گارڈز کے خلاف امریکی عدالت کی طرح پاکستانی عدالت کو بھی نیم فوجی ادارے رینجرز کے نصف صدی نفاذ کے خلاف فیصلہ کرنا چاہئے، ٹرمپ حکومت کا بے گھر لوگوں کے کرائمز کی آڑ میں واشنگٹن ڈی سی کو نیشنل گارڈ کی حوالگی کو فیڈرل کورٹ نے کو رد کر دیا ہے کہ جو نیشنل گارڈ کا نفاذ کیپٹل پولیس کے اختیارات میں مداخلت کے مترادف ہے، وہ دن کب آئے گا جب پاکستانی عدالت بھی گزشتہ نصف صدی سے پاکستان کے مخلتف علاقوں خصوصا کراچی میں رینجرز کے خلاف کب فیصلہ دے گی، جس نے شہر کے مخلتف طلبا ہوسٹلوں اور دوسری سرکاری عمارتوں پر قبضہ کیا ہوا ہے جس کا باڈر سیکورٹی کی بجائے پاکستانی شہریوں کی حرکات و سکنات کی مانیٹرنگ ہے چونکہ پاکستان کی وکلا باروں کو سیاسی مقدمات سے فرصت نہیں ہے جن کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ بھی امریکی وکلا تنظیموں کی طرح فوج کے مداخلتی ناجائز اور بے دریغ اختیارات کو عدالتوں میں چلینج کریں جس طرح ماضی میں سندھ ہائی کورٹ بار نے صدر رشید رضوی کی درخواست پر جنرل مشرف کے غیر آئینی اور غیر قانونی اعمال کو چیلنج کیا تھا
جس پر سپریم کورٹ نے چیف جسٹس افتخار چوھدری کی سربراہی میں جنرل مشرف کے تین نومبر کے تمام اعمال اور کردار کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے جنرل مشرف پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ قائم کرنے حکم دیا تھا جس پر نواز حکومت نے عمل درآمد کرتے ہوئے مقدمہ درج کیا تھا، جس کی بنا پر سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ خصوصی عدالت نے چیف جسٹس وقار سیٹھ کی سربراہی میں جنرل مشرف کو سزائے موت سنا دی جس کیخلاف فوج اور اس گماشتہ عمران حکومت سراپا ماتم کدہ بن گئی تھی، آخر کا ر عدالت کے اس فیصلے پر عمل درآمد کرنے کی بجائے اس عظیم جج وقار سیٹھ کو کرونا کے نام پر مار دیا گیا تھا۔











