ہم میں ہر ایک شاکی ہے کہ معاشرہ ناہموار ہے۔ معاشرتی ناہمواری بہت سی برائیوں کی جڑ ہے۔ یقیناً بہت سے اسباب ہوں گے آج ایک سبب یہ عاجز بھی قارئین کرام کے نذر کر رہا ہے۔ وہ ہے ہماری اہلیت جس طرف کوئی توجہ نہیں کرتا بلکہ ہم ریاست کو ذمہ دار ٹھہرا کر بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ جس شعبہ سے میرا تعلق ہے وہ مسجد کی خطابت ہے اور بھی ذمہ داریاں ہیں۔ مگر بنیادی طور پر یہی ہے کہ میں المدنی کا خطیب بھی ہوں اور بانی بھی ،مجھے اکثر علماء کو مسجد میں بلانا پڑتا ہے۔ کہنے کو تو ہم سب یہی کہتے ہیں کہ منبر رسول پر صرف وہ بیٹھے جو اس کا اہل ہو۔ ظاہر ہے یہ ڈیوٹی تو اس شخص کی ہے کہ وہ اس کا اہل ہے یا نہیں لیکن نہیں صاحب وہ بن سنور کر جس رنگ کی پگڑی اسی رنگ کا جبہ بسا اوقات اس کا عمامہ دیکھنے لائق ہوتا ہے۔ منبر رسول پہ بیٹھ گیا۔ اس میں میرا بحیثیت بانی مسجد یا ریاست کا کیا قصور ہے پھر ملغوظات اس واعظ کے منہ سے نکلتے ہیں جسے یہ کہہ کر بلا لیا گیا کہ یہ مفسر قرآن محدث وقت نہ جانے کیا گیا۔ مجھے کئی مرتبہ قیامت سے گزرنا پڑا اور اس مایہ ناز خطیب کو منبر سے اتارنا پڑا۔ معنی یہ کہ وہ اہل نہیں تھا۔ گورنمنٹ کی نوکریاں نکلتی ہیں۔ بھرتی کے لئے سفارشیں رشوتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ اہل حضرات کو کھڈے لائین لگا دیا جاتا ہے۔ نااہل حضرات کو چن لیا جاتا ہے ظاہر ہے پھر جو حشر اس پوسٹ کا ہوگا اس سے کیا معاشرہ ناہموار نہیں ہوگا۔ یہ ریاست کا قصور نہیں بلکہ اس آدمی کا قصور ہے جس نے نااہل ہوتے ہوئے اہل کی سیٹ سنبھال لی۔ ٹی وی ٹاک شو میں یہ کہہ کر بٹھایا گیا۔ کہ ماہر معاشیات ہے۔ مگر وہ صرف سیاسی سکورنگ کرتا رہا۔ معاشیات کی الف بے سے واقف نہیں تھا۔ نتیجہ کیا نکلا لوگوں کا وقت ضائع کیا سیاسی سکور پوائنٹ کرکے چلا گیا۔ غور کرتے جائیں اگر ہم نااہل ہیں۔ تو کیوں اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ جو کام ہم نہیں کرسکتے برملا اظہار کریں کہ ہم اہل نہیں ہیں۔ اگر ہم اللہ کا حکم دیکھیں تو ارشاد باری ہے۔ امانت سپرد کرتے وقت دیکھو کیا وہ اہل ہے اگر یہ تو امانت اس کے سپرد کردو جب امانت الٰہی کو آسمانوں اور زمینوں پر پیش کیا گیا تو آسمان و زمین چلا اٹھے اے اللہ ہم اس امانت کو اٹھانے سے معذرت کرتے ہیں۔ ہم اہل نہیں ہیں پھر ہمیں کیا پرابلم ہے کہ جان بوجھ کر اپنی نااہلی کو چھپاتے ہیں۔ اور معاشرہ کی ناہمواری کا سبب بنتے ہیں۔ کئی مملکتیں ڈوب گئیں۔ کیونکہ باگ ڈور نااہل لوگوں کے ہاتھ تھما دی گئی۔ موجودہ دور میں وطن عزیز میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔ آپ جو ہر نگاہ اٹھائیں۔ عدلیہ ہو۔ حکومت ہو۔ فوج ہو جسے ڈسپلن کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ ان کو بھی کئی نااہل جنرلوں کو زبردستی گھر بھیجنا بڑا کیونکہ وہ پروفیشنل کم اور سیاست زیادہ کر رہے تھے اے اہل وطن ہم سب مل کر سوچیں۔ کہ ہم کیوں نااہل ہوکر اہل لوگوں کا حق مار کر معاشرہ کی ناہمواری کا سبب رہے ہیں۔ یہ ریاست کا قصور نہیں ہے۔ یہ قصور ہمارا ہے۔ خود احتسابی کا راستہ کھلا ہے۔ اے اہل وطن یہ ظلم ہے اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔