ملک پاکستان اس وقت شدید ترین طوفانوں میں گھرا ہوا ہے ، ایک طرف مہنگائی کا طوفان برپا ہے تو دوسری طرف حکمرانوں نے طوفان بدتمیزی کا بازارگرم کیا ہوا ہے، ایک ایک بندے کو تین تین عہدوں سے نوازا جا رہا ہے ، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ، ملک کس ڈگرپرچل نکلا ہے ، پہلے سابق نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کو بیک وقت وفاقی وزیر داخلہ بنائے جانے کے ساتھ پاکستان کرکٹ بورڈ کی چیئرمین شپ تحفے میں دی گئی یعنی ایک وزارت کے ساتھ ایک وزارت مفت ہے ، اب وزیراعظم شہباز شریف کی موجودگی میں نواز شریف کے سمدھی کو خوش کرنے کے لیے نائب وزیراعظم کا عہدہ نکالا گیا ہے ، جس کے لیے اسحاق ڈار کو منتخب کیا گیا ہے اب اسحاق ڈار پہلے ہی وزیر خارجہ کے منصب پر فائز ہیں اور سفارتکاری کے معاملات دیکھ رہے ہیں اب ان کو اس وزارت کے ساتھ نائب وزیراعظم کاعہدہ مفت میں دیا جا رہا ہے ، یعنی ملک پر رحم کی کوئی راہ نہیں چھوڑی جا رہی ہے گو کہ آئین میں ایسے کسی عہدے کی ممانعت نہیں ہے لیکن پاکستانی آئین میں نہ تو اس عہدہ کا ذکر ہے اور نہ ہی اس کے کردار کے حوالے سے کوئی وضاحت موجود ہے۔ پیپلز پارٹی نے اپنے سابقہ دور حکومت میں سیاسی رشوت کے طور پر پرویز الہیٰ کو یہ عہدہ دیا تھا۔ اس لیے یہ کہنا مبالغہ نہیں ہو گا کہ اسحاق ڈار کو نائب وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کرنے کا مقصد بھی سیاسی ہے۔
اسحاق ڈار کو نواز شریف کے قریب سمجھا جاتا ہے، کابینہ میں ان کی شمولیت درحقیقت نواز شریف کی ‘اشک شوئی’ کے لیے ہی تھی۔ انہیں ان کی پسندیدہ وزارت خزانہ دینے کی بجائے وزیر خارجہ بنایا گیا حالانکہ وہ اس عہدے کے کسی بھی طرح اہل نہیں ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے جن زعما کو پارٹی میں نواز شریف کے قریب سمجھا جاتا ہے، اتفاق کی بات ہے کہ ان میں سے کوئی بھی عام انتخابات میں قومی اسمبلی کا رکن منتخب نہیں ہوسکا۔ یہ بھی حیران کن ہے کہ حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں ایسے کسی لیڈر کو قومی اسمبلی کے کسی حلقے سے مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ اس کی حکمت شہباز شریف بطور پارٹی صدر زیادہ بہتر طور سے جانتے ہوں گے لیکن عام طور سے مشاہدہ کیا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ایک طرف حکومت کا حصہ ہے تو دوسری طرف اس کی صفوں میں انتشار دیکھنے میں آ رہا ہے۔اسحاق ڈار کو نائب وزیر اعظم بنانے کا نوٹیفکیشن ایک ایسے وقت میں جاری ہوا ہے جب وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار ورلڈ اکنامک فورم کے خصوصی اجلاس میں شرکت کے لیے سعودی عرب میں موجود تھے۔ اس لیے سوال تو پیدا ہو گا کہ دارالحکومت سے غیر حاضری کے باوجود یہ اعلان کرنے کی کون سی اشد ضرورت تھی۔ کیا یہ اعلان چند روز بعد نہیں ہو سکتا تھا۔ اس کے علاوہ یہ جاننا بھی اہم ہے کہ اسحاق ڈار کو یہ عہدہ دینے کا فیصلہ پارٹی کے کون سے فورم یا کابینہ کے کس اجلاس میں کیا گیا۔ اور اسی وقت اس کی کیوں ضرورت محسوس ہوئی۔ یوں تو شہباز شریف بھی وزارت عظمی کے عہدے کے اہل نہیں ہیں۔ ان کی تقریریں اور سربراہ حکومت کے طور پر ان کی کارکردگی مایوس کن ہے۔ اس سے پہلے اپریل 2022 میں عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے بعد شہباز شریف وزیر اعظم بنے تھے اور 16 ماہ تک حکومت کے سربراہ رہے۔ اس دور میں ملکی معیشت کو جن دھچکوں کا سامنا کرنا پڑا اور مسلم لیگ (ن) نے اس کی جو سیاسی قیمت ادا کی ہے، اس کا ذکر شہباز شریف بار بار اپنی تقریروں میں کرتے رہے ہیں۔شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے کے طور پر ایک ایسی حکومت کے وزیر اعظم بنے ہیں جسے قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں ہے اور اسے اعتماد کا ووٹ دے کر اقتدار میں لانے والی پیپلز پارٹی بھی صرف اس موقع کی تلاش میں ہے جب وہ آصف زرداری کے خواب کی تکمیل کے لیے بلاول بھٹو کو وزیر اعظم بنانے کی کوشش کرے۔ تاہم طاقت ور اسٹیبلشمنٹ کی ترجیحات نے ایک طرف نواز شریف کی امیدوں پر اوس ڈالی ہے تو دوسری طرف آصف زرداری کا خواب بھی پوری طرح شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکا۔ البتہ شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ دے کر انہوں نے ایک طرف ملک کی صدارت حاصل کرلی تو دوسری طرف ‘پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ’ کے مصداق اس دن کا انتظار کر رہے ہیں جب اسٹیبلشمنٹ شہباز شریف سے مایوس ہو کر حکمرانی کا متبادل تلاش کرے گی۔اب مسلم لیگ (ن) داخلی کشمکش کا شکار ہے۔ اسی کے نتیجہ میں اسحاق ڈار کو نائب وزیر اعظم بنوایا گیا ہے۔ نواز شریف گروپ شاید امید کر رہا ہے کہ اس طرح اسے حکومتی فیصلوں میں زیادہ دسترس حاصل ہو جائے گی۔ البتہ نواز شریف جب تک اپنی ہی پارٹی میں کارکنوں کے حقوق کو تسلیم کرنے کا حوصلہ نہیں کریں گے اور مسلم لیگ (ن) کو فیملی انٹر پرائز کی بجائے حقیقی سیاسی تحریک نہیں بنایا جائے گا، اس وقت تک جوڑ توڑ کی سیاست بیک فائر کرتی رہے گی اور اس کا نقصان ملک کو ہو گا۔ نواز شریف اگر اقتدار کی جوڑ توڑ میں حصہ دار بننے کی بجائے پارٹی کو جمہوری بنیاد پر استوار کرنے کے لیے کام کرسکیں تو ملک میں ایک نیا سیاسی کلچر متعارف ہو سکتا ہے۔
٭٭٭