فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
69

محترم قارئین! دوسرے دن ابن زیاد نے اہل بیت کا تاراج کارواں ابن سعد کی کارکردگی میں دمشق کی طرف روانہ کیا۔ حضرت امام رضی اللہ عنہ کا سرانور نیزے کی نوک پر آگے آگے چل رہا تھا۔ پیچھے اہل بیت کے اونٹ تھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ امام علی مقام اب بھی اپنے حرم کے قافلے کی نگرانی فرما رہے ہیں۔ اثنائے سفر سر مبارک سے عجیب عجیب خوارق وکرامات کا ظہور ہوا۔ رات کے سناٹے میں وقت انگیز صدائیں فضا میں گونجتی تھیں کبھی کبھی سرمبارک کے اور گرد نور کی کرن پھوٹتی ہوئی محسوس ہوئی تھی جس آبادی سے یہ قافلہ گزرتا تھا ایک کہرام بپا ہوجاتا تھا۔ دمشق کا شہر نظر آتے ہی یزیدی فوج کے سردار خوشی سے ناچنے لگے فتح کی خوشخبری سنانے کے لئے ہر قاتل اپنی اپنی جگہ بیقرار تھا۔ سب سے پہلے زحربن قیس نے یزید کو فتح کی خبر سنائی حسین ابن علی اپنے اٹھارہ اہل بیت اور ساٹھ اعوان وانصار کے ساتھ ہم تک پہنچے۔ ہم چند گھنٹے میں ان کا قلمع قمع کردیا اس وقت کربلا کے میدان میں ان کے لاشے برہنہ پڑے ہیں۔ ان کے کپڑے خون میں تربتر ہیں۔ ان کے رخسار گردوغبار سے میلے ہو رہے ہیں۔ ان کے جسم دھوپ کی تمازت اور ہوا کی شدت سے خشک ہو رہے ہیں۔ پہلے تو فتح کی خوشخبری سن کر یزید جھوم اٹھا لیکن اس زلزلہ خیز اور ہلاکت آفریں اقدام کا ہولناک انجام جب نظر کے سامنے آیا تو کانپ گیا۔ بار بار چھاتی پیٹتا تھا کہ ہائے اس واقعہ نے ہمیشہ کے لئے مجھے ننگ اسلام بنا دیا۔ مسلمانوں کے دلوں میں میرے لئے نفرت و دشمنی کی آگ ہمیشہ سلگتی رہے گی۔ قاتل کی پیشمانی مقتول کی اہمیت تو بڑھا سکتی ہے پر قاتل کا الزام نہیں اٹھا سکتی اس مقام پر بہت سے لوگوں نے چھوکر کھایا ہے انہیں نفسیاتی طور پر صورت حال کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ بہرحال اس جرم میں یزید برابر کا شریک ہے۔ اس کے بعد یزید نے شام کے سرداروں کو اپنی مجلس میں بلایا اہل بیت کو بھی جمع کیا اور امام زین العابدین سے خطاب کرتے ہوئے کہا۔ اے علی! تمہارے ہی باپ نے میرا رشتہ کاٹا میری حکومت چھیننا چاہی اس پر خدا نے جو کچھ کیا تم دیکھ رہے ہو؟ اس کے جواب میں امام زین العابدین رضی اللہ عنہ نے قرآن پاک کی ایک آیت کریمہ پڑھی جس کا مفہوم یہ ہے کہ تہماری کوئی مصیبت ایسی نہیں ہے جو پہلے سے نہ لکھی ہو۔ دیر تک خاموشی رہی پھر یزید نے شامی سرداروں کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ اہل بیت کے ان اسیروں کے بارے میں تمہارا کیا مشورہ ہے؟ بعضوں نے نہایت سخت کلامی کے ساتھ بدسلوکی کا مشورہ دیا مگر نعمان بن بشیر نے کہا کہ ان کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہئے جو رسول اللہۖ انہیں اس حال میں دیکھ کر کرتے۔ یزید نے حکم دیا کہ اسیروں کی رسیاں کھول دی جائیں اور سید انبیوں کو شاہی محل میں بھیج دیا جائے یہ سن کر حضرت سیدہ زینب رضی اللہ عنھا نے فرمایا: تو اپنی حکومت میں رسول زاویوں کو گلی گلی پھرا چکا اب ہماری اس ظاہری بے بسی کا تماشہ اپنی عورتوں کو نہ دکھا ہم خاک نشینوں کو کوئی ٹوٹی پھوٹی جگہ دے دے جہاں سر چھپا لیں۔ بالآخر یزید نے ان کے قیام کے لئے علیحدہ مکان کا انتظام کیا۔ دوسرے ہی دن نعمان بن بشیر کی سرکردگی میں مع تیس سواروں کے اہل بیت کا یہ تاراج کاروں اس نے مدینہ منورہ کی طرف روانہ کردیا۔ ہزار کوشش کی کہ کربلا کی یہ دہکتی ہوئی چنگاری کسی طرح ٹھنڈی ہوجائے۔ لیکن جو آگ بحروبر میں لگ چکی تھی اس کا سرد ہونا ممکن نہیں تھا۔ صبح کی نماز کے بعد اہل بیت کا دلگراز قافلہ مدینہ شریف کے لئے روانہ ہوگیا۔ حضرت نعمان بن بشیر بہت ہی رقیق القلب، پاکباز اور محب اہل بیت تھے دمشق کی آبادی سے جونہی قافلہ باہر نکلا حضرت نعمان، امام زین المجاہدین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دست بستہ عرض کی یہ نیاز مند حکم کا غلام ہے جہاں جی چاہے تشریف لے جائیے۔
میری تکلیف کا خیال نہ کیجئے جہاں حکم دیجئے گا پڑائو کروں گا۔ جب فرمایئے گا، کوچ کروں گا کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ وہیں سے کربلا واپس ہوئے اور شہدائے کربلا رضی اللہ عنھم کو دفن کیا اور کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ کربلا کے آس پاس کی آبادیوں کو جب خبر ہوئی تو انہوں نے تجہیز وتکفین کا فریضہ سرانجام دیا۔ اور آخر الزکر روایت زیادہ قابل اعتماد ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر انور اب نیزے کی نوک پر نہیں تھا حضرت زینب، شہر بانو اور عابد بیمار رضی اللہ عنھم کی گود میں تھا پہاڑوں، صحرائوں اور دریائوں کو عبور کرتا ہوا یہ قافلہ مدینہ شریف کی طرف بڑھتا رہا آخر کار جب یہ قافلہ مدینہ منورہ شریف میں داخل ہوا اور امام کا کٹا ہوا سر لئے یہ قافلہ جس دم روضئہ رسول پر حاضر ہوا ہوائیں رک گئیں، گردش وقت ٹھہر گئی بہتے ہوئے دھارے تھم گئے۔ آسمانوں میں ہلچل مچ گئی، پوری کائنات دم بخود تھی کہ کہیں آج ہی قیادت نہ آجائے۔ اس وقت کا دلگراز اور روح فرسا منظر ضبط تحریر سے باہر ہے۔ قلم کو یارا نہیں کہ دردوالم کی وہ تصویر کھینچ سکے جس کی یاد اہل مدینہ کو صدیوں تڑپاتی رہی۔ اہل حرم کے سوا کسی کو معلوم نہیں کہ حجرہ عائشہ میں کیا ہوا مر قد رسول سے سیدہ کی خواب گاہ بھی چند ہی قدم کے فاصلے پر ہے۔ کون جانتا ہے لاڈلے کو سینے سے لگانے اور اپنے یتیموں کے آنسو آنچل میں جذب کرنے کے لئے مامتا کے اضطراب میں وہ بھی کسی مخفی گزر گاہ سے اپنے بابا جان کی حریم پاک تک آگئی ہوں تاریخ صرف اتنا بتاتی ہے حضرت زینب نے کربلا کی داستان زلزلہ خیز انتہائی پُراثر انداز میں سنائی۔ شہر بانو نے کہا: خاندان رسالت کی بیوہ اپنا سہاگ لٹا کر در دولت پر حاضر ہے۔ عابد بیمار نے عرض کی یتیمی کا داغ لئے حسین کی آخری نشانی ایک بیمار نیم جان شفقت وکرم اور صبروضبط کی بھیک مانگتا ہے۔ اس کے بعد شہزادہ کونین حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کا سر مبارک مادر مشفقہ حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کے پہلو میں سپرد خاک کردیا گیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اور آپ کے رفقاء رضی اللہ عنھم کے درجات بلند فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here