پاکستانی فوج قیام پاکستان سے لے کر آج تک ملک پر اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لیے ہر حد سے آگے نکل چکی ہے، میدان کوئی بھی ہو، اس میں افواج کی برتری لازم و ملزوم ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ کاروبار، رہائشی سکیموں، زرعی زمینوںگو کہ ہر ایک میدان میں افواج پاکستان کا اشتراک لازم و ملزوم ہے، لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ افواج پاکستان یہ فیصلہ کریں کہ اس مادر وطن کو آزاد کرتے ہوئے اس کی اجارہ اداری عام عوام کے سپرد کی جائے جوکہ مہنگائی، ابتر زندگی کے تھپیڑے کھاتے ہوئے صر ف ایک فیصد اشرافیہ کے رحم و کرم پر زندگی بسر کر رہے ہیں، دولت کا چند ہاتھوں میں سمٹنا اس ملک کی بہت بڑی بدنصیبی ہے، یہ امرا اور دولت مند افراد اپنے تحفظ میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ کسی نچلے طبقے سے محنتی شخص کو اوپر آنے نہیں دینا چاہتے وہ ساری زندگی اس جنگ میں سرف کردیتا ہے۔اب افواج پاکستان کو بھی چاہئے کہ وہ دولت کو چند ہاتھو ں کی بجائے وسیع ہاتھوں اور عام افراد کی دسترس میں لانے میں کردار ادا کرے، بڑے بڑے آرمی آفیسرز کو سینکڑوں ایکڑ اراضی مفت دینے کی بجائے عام افراد کی فلاح کے لیے استعمال کی جائے، کم قیمت رہائشی سکیمیں متعارف کروائی جائیں،پورے پورے شہر کی زمین کسی ایک جنرل کے ریٹائر ہونے پر اس کے نام کرنا آخر کونسے ملک کی پالیسی ہو سکتی ہے، ایسا تو ترقی یافتہ ممالک میں بھی نہیں ہوتا ، اس قدر مراعات اور پرتعیش زندگی پاکستان جیسے ملک میں کیسے گزاری جا سکتی ہے ، شاید یہی وجہ ہے کہ اتنی مراعات ملنے کے بعد پاک فوج کے ریٹائرڈ افسران ملک میں رہنا ہی پسند نہیں کرتے اور اپنے لیے اس زمین کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں، لیکن جب آپ ایک پورے شہر کی سہولیات کو ریٹائرمنٹ پر صرف اپنے نام کریں گے تولوگوں کی نفرت اور غصہ ایک قدرتی عمل ہے ۔فوج کے سیاست میں کردار کی بات کی جائے تو پاکستان کی تاریخ فوج کی سیاست میں مداخلت سے بھری پڑی ہے۔ سیاستدانوں نے 1954ء میں آرمی چیف جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع بنا کر وفاقی کابینہ میں شامل کرلیا۔ بیوروکریٹ صدر سکندر مرزا نے 1958ء میں مارشل لائ نافذ کرکے آرمی چیف جنرل ایوب خان کو چیف مارشل لائ ایڈمنسٹریٹر بنادیا۔ 1968ء میں کنوینشن مسلم لیگ کے مرکزی صدر ایوب خان نے اپنے ہی آئین 1962ء سے انحراف کرتے ہوئے اقتدار قومی اسمبلی کے سپیکر کے حوالے کرنے کی بجائے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کے سپرد کردیا۔ آرمی چیف جنرل اسلم بیگ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل نے 1988ء کے انتخابات سے پہلے آئی جے آئی تشکیل دی جس کے سربراہ غلام مصطفیٰ جتوئی تھے۔جن کو وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف کی مکمل سپورٹ تھی۔ آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے صدر غلام اسحق خان اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان سیاسی تنازع حل کرایا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سے این او آر کا معاہدہ کیا۔ وکلاء تحریک کے دوران صدر آصف علی زرداری نے آرمی چیف جنرل پرویز کیانی سے لانگ مارچ روکنے کے لیے معاونت حاصل کی۔ کیری لوگر بل میں فوج کے بارے میں شرائط کے حوالے سے فوج نے حکومت کو سخت پیغام دیا۔ سیاستدان جنرل ضیاء الحق کی مارشل لاء کابینہ اور مجلس شوریٰ کا حصہ بنتے رہے۔ سیاستدانوں نے آمر جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دیا۔ جب تک سیاست اور جمہوریت نااہل اور کرپٹ سیاستدانوں کے ہاتھوں میں رہے گی سیاسی جماعتیں منظم اور فعال ہونے کی بجائے کمزور اور غیر مستحکم رہیں گے اور افواج پاکستان کا منظم ادارہ سیاست پر بالادست رہے گا۔قیام پاکستان کے بعد سے 1951 تک برطانوی جنرل پاکستان کی فوج کی کمان سنبھالتے رہے۔ جنرل گریسی آخری غیر مسلم اور غیر پاکستانی آرمی چیف تھے۔ ان کے بعد جنرل ایوب خان کو پاکستان کا آرمی چیف بنایا گیا حالانکہ ایوب خان کے بارے میں قائداعظم کی واضح تنبیہ تھی کہ ان کی ترقی کے بارے میں محتاط رویہ اپنایا جائے کیونکہ ایوب خان سیاسی عزائم رکھتے ہیں مگر بانی پاکستان کی دوراندیشی کو اس وقت کے سیاستدانوں نے نظر انداز کر دیا جس کا خمیازہ 1958 میں پہلے مارشل لا کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ ایوب خان نے اپنی خود نوشت ‘فرینڈز ناٹ ماسٹرز’ میں ان سیاستدانوں کا بھی ذکر کیا ہے جنہوں نے ایوب خان کو مارشل لا لگانے کا مشورہ دیا تھا۔یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی آرمی چیف ملکی سیاست میں مداخلت کرنے اور آئین توڑنے کے بارے میں نہیں سوچ سکتا جب تک کہ اس کو سیاستدانوں کی طرف سے ترغیب اور مدد نہیں ملتی۔ اگر تمام سیاستدان فوج کے غیر سیاسی کردار پر اکٹھے ہوتے تو آج ملک کے حالات یہ نہ ہوتے، اب بھی وقت ہے ملکی سیاسی قیادت اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھتے ہوئے ملک و قوم کے مفاد کے لیے اکٹھے ہوجائیں۔
٭٭٭