مزاح لکھنا اردو نشر کی صنف میں سب سے مشکل کام ہے ،لکھنے والا مزاحیہ تحریر کا آئینہ ہوتا ہے جس میں طنز شامل کردیا جائے تو طنز ومزاح بن جاتا ہے۔ لکھنے والا اپنے اردگرد کے ماحول سے کردار چنتا ہے، انکا مشاہدہ کرتا ہے مشتاق احمد یوسفی کی تمام تحریریں اس بات کا ثبوت ہیں جو اس دور کے سب سے بڑے مزاح نگار مانے گئے ہیں ہم جب ان سے ملے(1970)تو وہ ایسے نہ تھے جیسا کہ پروفیسر حماد خان کی کتاب جو انکے کالموں پر مبنی ہے اور جو ہفتہ وار ”پاکستان نیوز” کی زینت بنتے رہے ہیں، خدا بھلا کرے خالد عرفان صاحب کا جنہوں نے ضروری سمجھا کہ اسے کتابی شکل دی جائے اور مشتاق احمد یوسفی کے مقابلے میں اپنی اصل تصویر کتاب کے دوسرے فلیپر پر دی جائے۔ جب کہ مشتاق احمد یوسفی کی تصویر سے ہمیں اختلاف ہے اس لئے کہ وہ52سال پہلے ایسے ہنس مکھ نہ تھے خیر بات یہاں پروفیسر حماد خان کی کتاب” چھ فٹ پرے ”کی ہو رہی ہے اور ہم اسے بغور پڑھنے کے بعد کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے یہ کالم جو طنز ومزاح سے بھرپور ہیں لکھنے کے بعد فیصلہ کیا کہ شاعری کی طرف جھانکا جائے یہ کسی دشمن کا مشورہ ہوگا غصہ ہمیں اس بات کا ہے کہ اردو داں ایک دوسرے مشتاق احمد یوسفی سے محروم ہوگئے، ہماری کوشش ہوگی کہ وہ اس پر غور کریں کہ بہتوں کا بھلا ہوگا ،ہم نے میرامن کے باغ وبہار سے لے کر جن جن کو پڑھا ان کے نام لکھتے چلیں۔ رتن ناتھ سرشار(فسانہ آزاد) منشی سجاد حسین(حاجی بغلول) شفیق الرحمن(ہلکی پھلکی مزاحیہ تحریر جو شائستہ انداز میں ہے) عصمت چغتائی(دوزخی، ٹیڑھی لکیر) کرشن چندر(ایک گدھے کی سرگزشت)شوکت تھانوی(کیتا) امتیاز علی تاج(چچا چکھن) عبداللہ حسین(اداس نسلیں) کنھیا لال کپور( مزاحیہ نعات) اور مشتاق احمد یوسفی(زرگزشت) کے علاوہ مزاحیہ کالم نگاری حالات حاضرہ کی بساط پر ابن انشاء ابراہیم جلیں شوکت تھانوی، اسد اللہ خان، کا نام پیش پیش ہے۔
ہم کہہ سکتے ہیں اگر پروفیسر حماد خان پاکستان میں ہوتے تو یقیناً ایک کینہ مشق کالمسٹ بن کر ابھرتے اور یوں وہ مشتاق احمد یوسفی سے بھی زیادہ نام کماتے۔ شمالی امریکہ میں ایسے بڑے لکھاری، دانشمند اور شعراء ہیں جنہیں ہجرت کھا گئی۔ اگر یوسفی صاحب کی یہ تحریر برجستہ ہنسا سکتی ہے” میں نے سوال کیا، آپ کافی کیوں پیتے ہیں انہوں نے جواب دیا، آپ کیوں نہیں پیتے” اور یہ بھی کہ چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافی لگی ہوئی اور ملاحظہ ہو چھ فٹ پرے میں شامل کالم”کریلا” کریلا جب غصہ میں ہوتا ہے تو سنا ہے نیم چڑھ جاتا ہے نیم پر چڑھنے سے کریلا بالکل اسی طرح سے آلو نہیں بن جاتا جس طرح سے مراثی گھوڑے پر چڑھنے سے شہوار نہیں بن پاتا۔ اسی کالم میں آخری میرا قہقہہ لگانے کی وجہ بنا ہے۔”ایک دفعہ ایک میراثی ایک ہاتھ میں بکرے کا گوشت اور دوسرے ہاتھ میں کریلے لئے گھر جارہا تھا کہ راستے میں بیٹھے کتے نے گوشت کے لفافے پر حملہ کیا اور گوشت چھین کر بھاگنے لگا مراثی تھوڑی دور تو کتے کے پیچھے بھاگا مگر کہاں کتا اور کہاں بے چارہ مراثی، جب وہ کتے سے گوشت لینے میں کامیاب نہ ہوسکا تو اس نے سانسیں اکٹھی کرتے ہوئے خود کو تسلی دینے کے لئے کہا کہ ”جا اوئے کتیا گوشت ہی کھا کریلے تو پھر بھی تیرے پاس نہیں” کچھ دہائی پہلے کہنیا لال کپور نے ایک مضمون لکھا تھا ”کپور للغات” الف سے یے تک ایک ایک جملے میں مزاح تراشی کی تھی۔ مثلاً ”آدمی” دو ٹانگوں والا جانور جو لومڑ سے زیادہ مکار ہے۔ ”جنت” کبھی سسرال یا کشمیر کو کہتے تھے آج کل کنا ڈاکو کہتے ہیں ”زندگی” ایک گورکھ دھندا جس کی تخلیق کرنے کے بعدخدا حیران ہے کہ اسے کسی طرح سلجھائے”عورت” مرد کی پہلی کمزوری اور خدا کی دوسری غلطی ”لب” اگر شیریں ہوں تو گالیاں کھانے کو جی چاہتا ہے۔”
لیکن اس سے کہیں بہتر پروفیسر حماد خان نے اپنے اطراف میں معاشرے میں پھیلی کئی شخصیات کو طنز کا نشانہ بنایا ہے کہ پڑھنے والا مزاح سے مسرور ہوجاتا ہے ”چھ فٹ پرے” COVID 19جیسی وبا سے تنگ آکر طنز اور مزاح پیدا کی گئی ہے اور یہ سب غور وفکر سے زیادہ لطف اندوزی کی آڑ میں لکھا گیا ہے لکھتے ہیں چھ فٹ پرے کا مطلب دو گز دور لیکن یہ دوگز اپنے مطلب کے لئے کبھی کبھی دو فٹ میں بھی تبدیل کردیئے جاتے ہیں اردو کے بہت سے ناعاقبت اندیش مشاعروں نے ہمیشہ محبوب کے اتنا قریب آنے پر زور دیا ہے کہ درمیان میں ایک تکیہ کا بھی فاصلہ نہ رہے، کرونا سے پہلے لوڈشیڈنگ میں سونے والے عاشق اندازہ لگا لیا کرتے تھے کہ اسکے اور محبوب کے درمیان ایک مچھر کا فاصلہ ہے۔ ا ور جب کرونا نے اپنے پر نکالنے شروع کئے تو مشاعروں نے بھی پینترا بدلا اور اس قسم کی شاعری شروع کردی۔ ”میں اپنا منہ ادھر کر لوں تم اپنا منہ ادھر کر لو۔ بہت خوبی سے کرونا کو استعمال کیا ہے جیسے کہہ رہے ہو ”لو تم بھی کیا کہو گے ہم ڈرنے والے نہیں اور پھر کہہ رہے ہو”جا اپنی حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو جا” اور کتاب ہمیں بذریعہ ڈاک بھجوا دی کہ ”لو پڑھو قہقہے لگائو اور یاد کرو۔
چونکہ یہ کتاب بہت پہلے لکھی گئی ہے جب مذہب کی شدت میں مولوی اپنے مخالف پر فتویٰ صادر نہیں کرتا تھا زیادہ تر کالموں میں درمیان میں مولوی کا تڑکا بھی لگایا ہے ان پر جن کی داڑھی میں تنکا ہے جیسا کہ پہلے لکھ چکے ہیں کہ مزاحی تحریر لکھنا آسان نہیں یہ ایک صلاحیت ہے جو پروفیسر حماد خان میں بدرجہ اتم تھی اور ہے ہماری تمنا ہوگی کہ وہ نثر نگاری کی طرف آئیں اور دکھی نسلوں کو ہنسائیں”چھ فٹ پرے’ پڑھ لینے کے بعد سوچنا پڑتا ہے کہ اب کیا پڑھیں ،اس کالم میں انکی کتاب سے چند ایک تحریریں ڈالتے چلیں۔ کالم مہمان خصوصی میں لکھتے ہیں ایک ادبی محفل میں ماضی کے مشہور پہلوان ”بھولو” کو مہمان خصوصی بنایا گیا جب انہیں خطاب کرنے کی دعوت دی گئی تو کہنے لگے” بھائیو! کثرت کیا کرو” ماسک لگانے پر طنزیہ انداز میں ”ماسک نے ہم کو نکما کردیا۔ ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے ” تقریب رونمائی سے ”حنیف اخگر مرحوم کے مجموعہ کلام میں کتابت کی دو سو غلطیاں تھیں جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی تمام کتابیں دریا برد کردیں وہیں سے یہ محاورہ ایجاد ہوا ”نیکی کر دریا میں ڈال” دوسرے کالموں میں طنز ومزاح کا طوفان کھڑا کردیا ہے۔ ”موزے بکرے کی ماں” آئینہ ”کان” ،”کوا” ،”دال” ،”مولوی” پہلوان محبت ”چاند” مراثی، عورت بھرپور کالم ہیں، اس کتاب پر سیر حاصل شعرہ کے لئے مزید صفحات درکار ہیں، افسوس کہ جگہ کی کمی نے ہمیں منجمدکردیا ہے۔
٭٭٭٭٭