نمک کا گھر خطرے میں!!!

0
137
رمضان رانا
رمضان رانا

کوے اور چڑیا کی کہانی بڑی مشہور ہے کہ کوے نے نمک کا گھر بنا کر فخر کیا کہ اب مجھے گرمی نہیں لگے گی جو گرمیوں میں ٹھنڈا رہے گا جبکہ چڑیا نے مٹی کا گھر بنایا جو گرمیوں میں شدید گرم ہوگا۔ایک دن بارش کا طوفان آیا تو کوے کا نمک کا گھر تحلیل ہوگااور کوا بے گھر ہوگیا۔مگر چڑیا کا گھر محفوظ رہا جو بڑے مزے سے بیٹھی آرام کر رہی تھی جس پر کوے نے اپنے نمک کے گھر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسا گھر تھا جو پانی میں بہہ گیا۔عمران خان کا بھی اقتدار اس نمک کے گھر سے مترادف ہے جس کو نمک سے تیار کیا گیا ہے جو کسی بھی وقت تحلیل ہوسکتا ہے جس کی انصاف پارٹی میں انصاف پسندوں نے اپنے الگ الگ گھر بنانے شروع کردیئے کہ عمران خان کا نمک کا گھر کسی بھی بارش میں ڈھل جائے گا۔موجودہ باغی گروپ جس کو ترین گروپ سے پکارا جارہا ہے جن کی بدولت عمران خان کو وزیراعظم بنانے کے لیے جہانگیر ترین نے اپنا جہاز پھر بھر کر ملک کیلئے پارلیمنٹرین کو جمع کیا تھا۔جو پہلے مسلم لیگ ن کے ممبران تھے جن کو پہلے بلیک کیا گیا پھر انتخابی دھاندلی میں جتوا کر ایوانوں میں لایا گیا وہ آج مسلم لیگ(ن) کی طرح تحریک انصاف سے بھی باغی ہوچکے ہیںجن کو حال ہی میں وزیراعظم عثمان بزدار نے ترقیاتی فنڈز کے نام سے ٹھنڈا کیا ہے کہ اب آئندہ آپ لوگوں کی بھی کرپشن کی دولت سے نوازہ جائیگا جس میں آپ کے مالی نقصانات کو پورا کیا جائیگاجس کی وجہ سے فی الحال وہ ترین باغی گروپ خاموش ہوگیا ہے۔کل پھر نہ جانے کونسا مطالبہ پورا کرنا پڑیگا۔ظاہر ہے موجودہ حکومت کے بنانے میں مختلف گروہ اور گروپ استعمال کیے گئے جو حکومت کی کارکردگی پر بہت پریشان ہیں کہ کل وہ انتخابی مہم میں کیا منہ لے کر جائیں گے جن کی حکومت کے دور میں ملک ڈوب چکا ہے۔عوام میں بے روزگاری اور مہنگائی میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ہر طرف بھوک ننگ کا طوفان برپا ہے لہٰذا اب آئندہ انتخابات میں موجودہ حکمرانوں کے اتحادیوں اور ساتھیوں کے لیے مشکل ہوگا کہ عوام کو مطمئن کر پائیں گے جس سے محسوس ہورہا ہے جہاز ڈوب رہا ہے جس کے چوہے ادھر اور اُدھر بھاگ رہے ہیںچونکہ موجودہ حکومت میں اکثریت غیر منتخب نمائندگان کی ہے جن کا پاکستان سے تعلق نہیں ہے جو وقت آنے پر اپنے اپنے ملک واپس چلے جائیں گے۔اسی لیے منتخب نمائندگان میں سخت بے چینی پائی جارہی ہے جو عوام کو جواب دہ ہیں ،ویسے موجودہ حکمرانوں کا ٹولہ ایسے مینڈکوں کے مترادف ہے جو ترازو سے پھُدک پھُدک کر ترازو کو ڈس بیلنس کر رہے ہیںجو ایم کیو ایم، ق لیگ اور ترین گروپ کی شکل میں عمران خان کو بلیک میل کرنے میں کامیاب رہے ہیںجن کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے مگر بڑی بڑی وزارتوں پر فائز ہیں جس سے نمک کے گھر تعمیر ہو رہے ہیں جو کسی بھی وقت بارش میں گھل سکتے ہیں جس کے خطرات لاحق ہیں کہ کب اور کس وقت یہ گھر بارشوں میں تحلیل ہوجائیں گے۔
تاہم جہانگیر ترین جو تاحیات نااہل ہوچکے ہیںجن پر اربوں چینی کا کرپشن کا الزام لگا ہوا ہے جن کو بار بار ایف آئی اے کے سامنے پیش کیا جارہا ہے جن کے باغی گروپ کے چالیس ایچ پی اے اور آٹھ ایم این اے کے بعد عمران خان قانوناً اور اخلاقاً وزیراعظم باقی نہیں رہے ہیںجن کو فوری طور پر مستعفی ہوکر نئے انتخابات کرانے کا اعلان کرنا چاہئے تھایا پھر اصلی اعتماد کا ووٹ لینا چاہئے کیونکہ ان کی پارٹی سے اتنی بڑی تعداد باغی ہو کر اپنا الگ تھلگ گروپ بنا چکے ہیںجو عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ کہا جائے تو م نہ ہوگا اگر ایسے باغی گروپوں کا سلسلہ جاری رہا جو رہے گا جس میں طرح طرح کی لکڑیوں سے گھر بنایا گیا ہے جس کا اتا پتہ نہیں ہے کہ کونسی لکڑی کب ٹوٹ جائے گی۔جس سے پاکستان کو شدید نقصان ہورہا ہے کہ آج ملک غیر مستحکم اور زوال پذیر بن چکا ہے جس کی تمام ترقی رک چکی ہے۔ملکی آمدن کم اور اخراجات بڑھ چکے ہیںیہاں مینوفیکچرنگ بند برآمدات بند کاروبار ٹھپ، ہر طرف ہوکا عالم ہے۔ایسے میں اس قسم کی باغیانہ رویوں سے ملک کو مزید نقصانات پہنچیں گے جس کو پورا کرنا بہت مشکل ہوچکا ہے ،وہ ملک جس کا خزانہ خالی ہو جس کا بجٹ خسارے کی وجہ سے پیش کرنا مشکل ہورہا ہو ،ہر قسم کی تجارت متاثر ہوچکی ہو۔وہ ایسے وقت میں گروہ بندیاں برداشت نہیں کر پائے گا۔
بہرحال ایسے حالات میں جمہوری ریاستوں میں ازسرنو انتخابات ہوجاتے ہیںتاکہ سیاسی پارٹیاں دوبارہ عوام سے منتخب ہوکر ایوانوں میں آئیں جس کا پاکستان پر آج اطلاق ہو رہا ہے کہ آج موجودہ حکومت کافی عرصہ سے اپنی اکثریت کھو بیٹھی ہے جس کا اتحاد مینگل گروپ بن چکا ہے جس کے بعد ایم کیو ایم کئی مرتبہ حکومت سے ہٹ چکی ہے۔آج ترین گروپ بھی باغیانہ رویہ اختیار کرچکا ہے ایسے میں پاکستان میں بھی ازسرنو انتخابات کا انعقاد لاگو ہوچکا ہے۔بشرطیکہ حکمران طبقہ جمہوری سوچ کا حامل ہو جوکہ بالکل نہیں ہے جن کا نظریہ سیاست فسطائیت ملے جس نے اپوزیشن کو آج تک تسلیم نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے پارلیمنٹ اپاہج نظر آرہی ہے۔
جس کی موجودگی میں صدارتی آرڈیننس فیکٹری سے آئے دن آرڈیننس جاری ہورہے ہیں جس سے ملکی آئین کو منجمند کر دیا گیا جو آئین پاکستان کی شدیدخلاف ورزی ہے کہ پارلیمنٹ کی موجودگی میں صدارتی آرڈیننس فیکٹری سے قانون سازی کی جائے جس کی آئین اجازت نہیں دیتا ہے کہ جب پارلیمنٹ اجلاس ہو تو صدر آرڈیننس جاری نہیں کرسکتا ہے چونکہ موجودہ حکمران ٹولہ آمریت اور فسطائیت کا ملبہ ہے جس کی رگ رگ میں آواز اور جابرانہ خون دوڑ رہا ہے لہٰذا ان سے غیرقانونی اور غیر آئینی حرکتوں سے توقع رکھنا چاہئے جس کے خلاف خرگوش کی نیند میں مبتلا حزب اختلاف کو جاگنا ہوگا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here