عید الاضحی کی آمد آمدہے۔بکروں ،چھتروں
کی لوٹ سیل،بدبودار بکروں کی قدرومنزلت میں اضافہ ۔اصلی دنبے بے وقعت ۔۔انکا نہ کوئی خریدار اور نہ قدر۔ قارئین کرام!!!۔ آجکل کئی نسلوں کے بکرے مارکیٹ میں موجود ھیں۔ہر ایک کا مول نسلی اعتبار سے متعین۔زیادہ بد نسل بکرا زیادہ قیمت پر۔زیادہ بدبودار اور متعفن بکرا سپریم کورٹ کے ترازو میں ۔بوٹوں والا بکرا ڈالروں کی یلغارمیں بے لگام۔ وفادار ،نظریاتی،محب وطن،ایماندار اور نسلی بکرے بے وقعت۔اس بدبودار نظام میں متعفن اور بکا بکرے ہی قابل قدر بیں۔ فوجی بکرے،عدالتی بکرے ،پہاڑی بکرے، پنجابی بکرے،بلوچی بکرے،سندھی بکرے، مہاجر بکرے۔مدارس بکرے۔ سیاستدان،جرنیل،صحافی،اور درباری علما بکروں کی لوٹ سیل ۔ مملکت خدادا جب سے وجود میں آئی ھے۔ جرنیل۔ سیاستدان۔جج۔ صحافی اور بکاعلما برائے فروخت رہے۔ میرے ملک میں اگر آپ کو سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کرنے والوں کی آشیرباد حاصل ھے ۔زرداری تو کیا۔ ملک ریاض اور عابد باکسر بھی وزیراعظم بن سکتے ھیں۔فوج کی اینٹ سی اینٹ بجانے والا ،قاتل زرداری صدر بن چکا ھے۔ جو اس وقت اسٹبلشمنٹ کی آنکھ کا تارا ھے۔ دہشت گرد اور بوری بند لاشوں، پوری پوری فیکٹری میں زندہ جلانے والے ملکی تقدیر کے فیصلے کرسکتے ھیں تو پھر ظفر سپاری بھی صدر بن سکتے ھیں۔ یہ ملک چوروں ڈاکوں اور قاتلوں کے لئے بنا ھے۔ میں بیحثیت اوورسیز پاکستانی تلملاتا ھوں ۔ مجھے درد اٹھتا ھے۔جس کی جائداد،بچے پاکستان میں غیر مخفوظ ھوں۔جس کی جان غیر مخفوظ ھو۔ ایک آئی فون کو unlock کروانے کا اسی ہزار ھو۔مضر صحت، دودھ،گھی اور جعلی ادویات ھوں۔ بل اور مہنگائی بے قابو ھو۔ہر ادارہ بے لگام اور منہ زور ھو ۔توایسے فرضی آئین کو آگ لگا دو۔جس نے مجھے کوئی حقوق نہیں دئیے۔ یہاں انصاف اور ضمیر فار سیل ھے۔بات ضمیر فروشی سے آگے بڑھ جائے تو اسے بے غیرتی کہا جاتا ھے۔ملکی بے وفائی سے آگے بڑھ جائے تو اسے ماں فروشی کہا جاتا ھے۔انصاف کی فراہمی کو پیسوں سے تولا جائے تو اسے جسم فروشی کہا جاتا ھے۔جو رنڈیوں (یعنی ججوں )کا کام ھے۔ سابق آئی ایس آئی چیف جنرل پاشا کے اپنے ادارے اور جنرل باجوہ پر الزامات لمحہ فکریہ ھیں۔باجوہ کے رویہ سے فوج میں ڈویژن نظر آتی ھے ۔جو دشمنوں کا دیرینہ منصوبہ تھا۔ جماعت اسلامی کے سابق امرا ۔ قاضی حسین احمد مرحوم و مغفور اور سید منور حسن مرحوم و مغفور ، جرنیلوں کو کڑوڑ کمانڈر کہا کرتے تھے۔ کھل کر ان پر تنقید کرتے تھے۔ کھل کر مِسنگ پرسنز کی حمایت کرتے تھے۔ سیاست میں مداخلت پر کھل کر ان کے خلاف بات کرتے تھے۔ جو آج تک کسی کو جرآت نہئں ھوئی۔عمران خان ابھی تک مصلحت کا شکار ھیں۔ کھل کر نہ باجوہ کا نام لیتے ھیں۔ اور نہ ہی کھل کر انکے کرتوت بیان کرتیھیں۔ جرنیلوں اور عدلیہ کے خلاف کھل کر وہی بات کرئے گا جو ان کا کانا نہ ھو۔ جس نے انکی وساطت اے کوئء منصب نہ لیا ھو۔ جرنیلوں کے چہیتیعمران خان ایم کیو ایم کے فاشسٹوں کی طرز پر ٹائیگرز فورس بنا رہیھیں۔جو فوج سے ٹکرا سکتے ھیں۔آج تک جتنے بھی حکمران آئے جرنیلوں کے کندھوں پرآئے ۔اس لئے انکی جرآت مفقود ھوتی ھے۔ میں نے گزشتہ کالم میں بھی لکھا تھا اس آئین کو جلادو۔جس کی 62 اور 63 میں انتحابی امیدوار کی اہلیت اور انتحابی اخراجات درج ھیں۔ جس پر کبھی عمل نہیں ھوا۔ملک کا نام اسلامی جمہوری پاکستان ھے۔جہاں سود کو فروغ دیا جا رہا ھے۔افسوس ! یہ ملک نہ اسلامی ھے۔ نہ جمہوری ۔ کرپٹ ،قاتل حکمران اور قادیانی جرنیل دندنا رہے ھیں۔ جن کی وجہ سے ھمارا دفاع غیر مخفوظ ھے۔ امریکہ خطے کو گرم رکھنے کے لئے اڈے چاہتا ھے۔ جو باجوہ اینڈ کمپنی کی مرضی سے دئیے جارہے ھیں۔رجیم چینج اسی پالیسی کا حصہ تھی۔ کڑوڑ کمانڈرز اس پوری گیم میں اپنے ضمیر کا سودا کر چکے ھیں۔ ایسے آئین کو گٹر میں پھینکنا چاہئے۔ جو عوام کو انصاف نہ دے سکے۔کرپٹ جرنیلوں، کرپٹ ججوں ،کرپٹ سیاستدانوں کو قانونی کٹہرے میں لاکر سزا نہ دے سکے ۔ ایسے آئین ،ایسی عدالت اور ایسے ایوان کو آگ لگا دو۔صرف پانچ جج ،پانچ لیڈر اور پانچ جرنیلوں کے سر قلم کئے جائیں ۔ میرا پاکستان دنیا میں زندہ قوموں کیطرح ابھرے گا۔ اس کی بہتری کا واحد حل جماعت اسلامی کا اقتدار میں ھونا ضروری ھے۔ گزشتہ روز میرا پروفیسر حماد خان سے مکالمہ تھا ۔ میں نے سوال کیا کہ کیسے غیرت مند جرنیل ھیں جو ڈاکوں کوسلیوٹ پیش کرتے ھیں۔انکا کہنا تھا کہ دراصل یہی غیرت سے عاری مہرے ھیں ۔جو ان ڈاکوں کو بار بار لاتے ھیں تاکہ انکے پلاٹ، پلازے اور زمینوں پر قبضے برقرار رہیں۔جو انکی پینٹ تک اتارتے ھیں یہ فوجی اسٹبلشمنٹ ان کو لا کر باقی ماندہ زندگی عش و عشرت میں گزارنا چاہتے ھیں۔بدبودار ضمیروں والے یہ بکرے ہر دور میں آسان قسطوں پر دستیاب ھیں۔ قانون طاقتور کی لونڈی۔ جنرنلزامریکء ڈالرز میں قسطوں اور کرائے پر۔بکا صحافی بدبودار بکرے، جس ہنڈیا میں ڈالیں بدبو۔۔میلے جبے اور ہر کھونٹے سے بندھنے والے مذہبی رہنما آسان اقساط پر،قیمتی پلاٹ جرنیلوں صحافیوں اور مخصوص اشرافیہ میں ریوڑیوں کیطرح تقسم۔کرپٹ بیوروکریٹ کی آخری گیند پر چھکے کی کوشش۔فوج اور عدلیہ کی توقیر داغدار۔ ادارے بیکار ۔
سیاسی گماشتے لوٹ مار کے لئے بیدار۔ عوام مردہ اور سسٹم سے بیزار۔۔ ضمنی الیکشن کی آمد ھے۔ فی الحال الیکشن کمپئن میں وہ گہما گہمی نظر نہیں آرہی۔لوٹے امیدواروں کو اپنے حلقوں میں عوامی غضب کا سامنا ھے ۔ کراچی کیامن اور انفراسٹرکچر تباہ کرنے والی ایم کیو ایم ھمیشہ کیطرح آسان اقساط پر بک گئی ھے۔اسٹبلشمنٹ کی چہیتی رہء ھے۔ جس پر جی چاہا بھونکنے کے لئے چھوڑ دیا۔ ایم کیوایم اورفضل الرحمن میراجسم میری مرضی کے فارمولہ پر کاربند۔جسم فروشی کی قیمت چند وزارتیں ۔ مولانا فضل الرحمن کی قیمت دو وزارتیں تھیں ۔ جنہیں پانے کے بعد سود، یہودی اور ہندو ایجنڈا سب قبول ۔ موجودہ سسٹم میں غنڈے،
بدمعاش اور ڈاکو ہی اسمبلیوں تک پہنچتے ھیں۔ جمہوری ڈاکو الیکشن کا رزلٹ پہلے سے تیار کرتے ھیں،پاکستان میں دراصل جمہوریت کبھی تھی نہیں۔ فوجی جمہوریت ھے۔ ہر ادارہ انکے تابع،عدالتیں، نیب، ایف آئی اے۔ متنجن گروپ کبھی بھی نیب، ایف آئی ایاور عدالتوں سیاپنے کیس فوجی غنڈوں کے بغیر ختم نہیں کروا سکتا۔سود کی حمایت میں حکمران اور بینک سپریم کورٹ میں اپیل دراصل اللہ کے عذاب کو دعوت ھے۔ مفتی منیب الرحمن،مفتی تقی عثمانی اور جید علما کو سود کے خلاف باہر نکلنا چاہئے۔پی ڈی ایم کے سربراہ فضل الرحمن پر عنقریب اللہ کا قہر برسے گا۔جس نیابھی تک مذمت نہیں کی۔ یاد رہے کہ جماعت اسلامی نے سود کے خلاف کیس جیتا ھے ۔ پاکستان سکھا شاہی کا معاشرہ ھے۔ جس کو مرضی خرید لو۔ جس کو چاہو اندر کردو۔ قاتلوں ، لٹیروں اور بدمعاشوں کو حکومت دے دو۔ لبرلز اور بے حیاں کو کھلی چھوٹ ۔قانون طاقتور کی لونڈی۔روپیہ منی کیطرح بدنام۔ ڈالر باجوہ کیطرح بے لگام۔۔حکومت آخری باری سمجھ کر لوٹ مار میں مصروف۔ معصوم عوام اور دنبے پریشان۔ ماضی میں مشرف نے ملک امریکہ کے آگے گروی رکھا۔نواز شریف نے امریکی اور انڈین لابی کو پروموٹ کیا ۔ اسرائیل سے اپنا ذاتی بزنس کیا۔ زرداری امریکہ اور یورپی یونین کے سامنے لیٹ گیا۔شہباز شریف امریکہ کو دوبارہ اڈے دینے جارہے ھیں۔رشین کھوتے آجکل امریکی پپی بن چکے ھیں۔لیکن جی ایچ کیو کو یہی کھوتے قبول ھیں۔ یہ فوجی بدمعاشیہ۔ ترچھی ٹوپی والے سراج لالہ کی ملک سیوفاداری ،دیانتداری اور ایمانداری کو کیوں پوچھیں۔ انکے ہاں وفاداروں کی کوئی قدر نہیں۔ سراج لالہ کی پارٹی ڈھاکہ میں ان فوجیوں کی پتلون کے تخفظ اور وقار کیدفاع میں تیس ہزار نوجوان کٹوا چکی۔ قربانیوں اور شہادتوں کا نہ تھمنے والاسلسلہ ہنوز جاری ہے۔نہ جھکنے اور نہ بکنے والے محب وطن ۔ان فوجیوں کے ہاں بے وقعت ٹھہرے۔۔۔ اسٹبلشمنٹ ۔غدار،وطن دشمن اور قاتل کی قدردان۔ عدالتوں سے ایلیٹ کلاس کے لئے معجزات غریب کو انصاف کے حصول میں دھکے۔ بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائیگی۔ کیونکہ یہی ان بدمعاش بکروں کی مائیں ھیں۔جن کی عقل پر قیمے والے نان اور کھوتے کی بریانی نے پردہ ڈال دیا ھے۔ یہ ان درندوں، جانوروں،اور حیوانوں کو ایوان میں پہنچاتے ھیں ۔عدالتیں وہ رنڈی خانے ھیں جن کے سوموٹو کا فائدہ کبھی عوام تک نہیں پہنچا۔ووٹر قرآن و حدیث میں روزانہ پڑھتے اور علما کے خطابات میں سنتے ھیں کہ ظالم، جابر، خائن، بددیانت اور کرپٹ کو اپنا رہنما نہ بنا۔مگر اسے پس پشت ڈالکر ھم ان قصائیوں کے آگے خود ذبیح ھونے بیٹھتے ھیں ۔ جو مہنگائی،لوڈشیڈنگ ،بدامنی کی شکل میں ھماری بوٹیاں نو چتے ھیں۔ واویلا کرتے ھیں ،روتے ھیں، لیکن آئیندہ الیکشن میں اس سے بڑے مجرموں کو منتحب کرتے ھیں۔ ھم وہ بکرے ھیں جو ہر عید پر قربان ھوتے چلے آرھے ھیں۔ حکمرانوں نے عوام کی چیخیں نکال دی ھیں ۔ جس کی آوازیں تو آسمانوں تک پہچ رہء ھیں ، لیکن بے حسی اور بے شرمی کی انتہا ھے کہ ھمارے ہاتھ ان تک نہئں پہنچ رھے۔ھم ایسیعظیم لوگ ھیں۔ چین، قطر، سعودیہ ، ملائشیا اور یورپ کو ھم پر اعتبار نہیں، کوئی ھمیں قرض نہیں دیتا۔ ہر جگہ سے انکار ھے۔ باجوہ پہلے چین اور اب سعودیہ کی ترلے منت سے امداد لا رہے ھیں ۔ جو فوجی اسٹبلشمنٹ اور سیاسی اشرافیہ مل بانٹ کر کھائینگے۔ عوام اور آئیندہ نسلیں اس قرضہ کو بھگتیں گے۔ شہباز شریف کا کہنا ھے کہ امیر افراد ملک کے لئے قربانی دیں۔ اس بے شرم سے کوئی پوچھے اربوں کی جائدادوں میں سے کتنے ملک کے لئے وقف کئے ھیں؟ انہوں نے ان کے حواریوں نے کتنی قربانی دی۔ گزشتہ ستر سال میں پھودو عوام کو یہ معلوم نہیں ھوسکا، کہ کس حکمران نے کتنا قرض لیا ، کن شرائط پر لیااور کون سے ایسٹس گروی رکھنا پڑے۔کون سے پراجیکٹس پر لگا۔ کتنا لوٹا گیا۔کس کس نے لوٹا۔ھمیں جو گرانٹ یا امداد ملیں وہ کہاں گئیں۔؟ خدارا! ہوش کے ناخن لیں ان قسطوں والے بکروں سے جان چھڑائیں۔یہ کرائے کے ٹٹو فار سیل ھیں۔ امریکی ڈالر اور پونڈ ، انکا خدا ھے ۔ ان کا اوڑنا،بچھونا، مال سمیٹنا اور خلف سے روگردانی ھے۔
آپ کے پاس بہترین آپشن جماعت اسلامی ھے۔ جس کردار گواہ ھے کہ ان سے بہتر قوم کی خدمت کوئی نہیں کرسکتا۔ ایک ہسپتال چلانے والے کو اقتدار دیا جاسکتا ھے تو ہزاروں سکول، ہاسپیٹلز، اور ادارے چلانے والوں کو کیوں نہیں۔حدمت حلق اور عوامی بہبود کرنے والوں کو کیوں نہیں۔ ھم نے ستر سال۔ جرنیلوں۔ڈکٹیٹروں، مساوات کے علمبرداروں۔ بزنس مینوں اور کھلاڑیوں کو آزما کر دیکھ کیا ۔ خدارا ایک بار جماعت اسلامی کے نظریاتی لوگوں کو آزما کر دیکھ لیں۔ میں سینے پر ہاتھ رکھ کے ۔خدا کی قسم کھا کر کہتاہوں ۔ پاکستان سے کرپٹ عناصر کا خاتمہ، برابری کی سطح پرانصاف کا پاکیزہ معاشرہ، نظام مصطفے کا احیا ۔ عوای حقوق کی ضمانت ۔ باعزت ،پرامن اور خوشخال پاکستان ۔صرف اور صرف جماعت اسلامی دے سکتی ہے۔
٭٭٭