منگل یعنی28جون کو پورے ملک میں بالخصوص نیویارک میں پرائمری ضمنی انتخابات ہونے جارہے ہیں۔ڈیموکریٹک اور ریپبلکن پارٹی دونوں کے اور ان میں سے جو بھی جیتے گا وہ8نومبر منگل کے دن امیدوار کی حیثیت سے حصہ لے گا۔اس وقت دونوں بڑی پارٹیوں میں گھمسان کا مقابلہ ہے۔ری پبلکن پارٹی کا سینیٹ میں قبضہ ہے اور ڈیموکریٹک پارٹی کی کانگریس میں اکثریت ہے۔کوئی بھی بل اگر کانگریس میں پاس ہوجاتا ہے تو سینیٹ میں ریپبلکن رکاوٹ ڈال دیتے ہیں ، دونوں ہائوس میں قانون سازی جاری رہتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق اور بقول سینیئر صحافی محسن طہیر صاحب کے نیویارک میں خاص کر لونگ آئیلینڈ، اور پانچ باروز میں پاکستانی رجسٹرڈ ووٹر کی تعداد آدھے ملین کے برابر ہے جب کہ نیویارک میں کل تعداد9%اور مجموعی طور پر1.5یعنی ڈیڑھ ملین ہے۔جس سے ظاہر ہوتا ہے مسلمان اگر سب ووٹ ڈالنے نکل جائیں تو کوئی بھی امیدوار ہار یا جیت حاصل کرسکتا ہے لیکن ہم ابھی تک الیکشن میں طے شدہ فیکٹر نہیں بن پائے ہیں۔اس کے لیے بالخصوص بنگلہ دیشی آگے ہیں اور پاکستانی سوئے ہوئے ہیں البتہ ریاست کی طرف سے ملی مراعات حاصل کرنے میں پیش پیش ہیں کہ ایسا لگتا ہے آسمان سے گر رہے ہیں باوجود اس کے کہ یہاں کی رہائش تمام ریاستوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے لیکن دوسری مراعات کے لئے نیویارک ہی پسندیدہ شہر ہے۔اس کی ایک تفصیل ہے جو پھر کبھی بتائینگے۔المیہ یہ ہے کہ پچھلے تین دنوں سے لوکل نیوز خاص طور پر پرائمری الیکشن کے بارے میں کوئی خبر نہیں دے رہی تو امیدواروں نے میڈیا کا بائیکاٹ کیا ہے اور وہ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا استعمال کر رہے ہیں۔یا پھر میڈیا نے ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ایسا کیا ہے کہ عوام کی توجہ ہٹا کر فضول مسائل پر لگائی جائے اس وقت پورے امریکہ کو جو درپیش مسئلہ ہے وہ مہنگائی ہے اور تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور یہ ساری کمپنیاں منہ بھر بھر کے میڈیا پر اشتہار دیتی ہیں لہذا بہتر سمجھتے ہوئے کوئی خبر نہیں۔البتہ جو خبر تین دن سے بار بار اشتہار کی جگہ چل رہی ہے وہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے اور اعلان کے بعد اسقاط حمل کو ریاستی مسئلہ قرار دیا ہے اور اس پر پابندی ہے کہ اسقاط حمل غیر قانونی قرار دیا ہے اور اسکے خلاف شہر شہر مظاہرے ہو رہے ہیں مزے کی بات یہ ہے کہ ہم جنس پرست بھی اس کشتی میں سوار ہیں جب کہ اس مسئلہ سے انکا کوئی لینا دینا نہیں کہ نہ ہی وہ حاملہ ہوسکتے ہیں اور نہ ہی کچھ اور کرسکتے ہیں ایک بیز پر اس ہجوم میں یہ بھی لکھا تھا”جو لوگ متحد ہوتے ہیں انہیں کبھی شکست نہیں ہوتی”۔ہمارا ایسا کہنا ہے کہ عوام اس مسئلے پر نہ تو متفق ہیں اور نہ ہی متحد ہیں۔قدامت پسند سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں ایک اور سلوگن دیکھنے کو ملا ”نہ ہی میرا جسم، نہ ہی میری پسند”یہ پاکستان میں خلفشار عورتوں کے ذہن سے مل رہا ہے۔”میری پسند میرا جسم” لیکن یہاں یہ مناسب ہے کچھ معنوں میں یہ ایک تفصیل ہے کہ اس فیصلے سے ریاستوں کو کیا نقصان ہوگا۔اور کیا فائدہ ،بتاتے چلیں کہ امریکہ کی ریاستوں میں اسقاط حمل پر پابندی ہے۔10ریاستیں فیصلہ نہیں کر پائی ہیں۔اور9ریاستوں میں قانونی جرم ہے یا ایسا کرنے والا سزا کا مرتکب ہوگا۔
پچھلے50سالوں میں امریکہ کے عوام کا شعور بھی ختم ہوچکا ہے اور وہ میڈیا کے طابع ہے کہ جدھر کی ہوا چلے، چلے چلو کچھ لوگ اس قسم کی باتوں سے تفریح کا پہلو بھی نکال لیتے ہیں۔اور زندگی گلزار ہے”LIFE GOES ON”کے تحت میوزک فیسٹیول کا اہتمام کر بیٹھتے ہیں۔نیویارک میں چونکہ اسقاط حمل کی اجازت ہے ریاستی قانون کے تحت تو انہوں نے اس بات کی مزید تشہیر کے لئے ہائی لینڈ پارک مڈل سیکس کائونٹی میں”پرائڈ میوزک” فیسٹیویل کا اہتمام کر ڈالا خوب ہلا گلا ہوا۔
ہمارے پاکستان کے دوست کہہ رہے تھے یہاں عوام کا برا حال ہیں چور حکومت کے آتے ہی مہنگائی ہوگئی ہے۔پیٹرول کی قیمتیں آسمان پر ہیں سن کر افسوس ہوا پھر ہم نے یہاں کا حال بتایا کہ صبر کرو۔وہ تو پاکستان ہے جہاں چوروں اور ڈاکوئوں کی حکومت ہے جو امریکہ کی مرہون منت ہے۔لیکن یہاں تو پورا ملک گندی سیاست اور کارپوریشن نے یرغمال بنایا ہوا ہے جس کا کوئی جواز نہیں سعودی عرب کو سنا ہے اس سال غیر معمولی منافعہ ہوگا آئل کی مہنگائی سے ہمارا اندازہ ہے ڈیڑھ سو بلین جب کہ روس مزے اڑائے گا انڈیا اور جرمنی سے ہر طرح کی تجارت کرکے کوئی روک تھام نہیں کہنے کو روس پر پابندی ہے لیکن انڈیا انکا یاد ہے لہذا اسے کچھ نہیں کہا جائے گا صرف عمران کے روس جانے پر اسے گدی سے راتوں رات اتار دیا میڈیا بکواس کرتا ہے کہ فوج لائی تھی فوج نے اتار دیا اب ان عقل کے دشمنوں سے پوچھے کیا انکے خیال میں عمران کے علاوہ کوئی اور بھی تھا سیدھی سی بات ہے وہ جانتے ہیں کہ امریکہ کو بھٹو پسند نہیں تھا ضیاء الحق نے آنکھ دکھائی تھی دونوں کو تاریخ بنا دیا انکی دیکھا دیکھی زرداری نے بھی کیا۔بینظیر کو راستے سے ہٹا دیا۔اس پاکستان کی تاریخ بھی عجب مضحکہ خیز اور لاقانونیت سے بھری ہوئی ہے کہ مزید کچھ کہنے کو دل نہیں چاہتا۔
بے چارے عوام کو یہ سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے لیکن کبھی کبھی ایسی بھی چھوڑتے ہیں کہ ایک وفاقی وزیر جو پہلے ریلوے کی پٹڑیاں بیچ کر کھا چکے ہیں نے کراچی آکر ایم کیو ایم کو خوش کرنے کے لئے کہہ دیا کہ ہم سکھر اور حیدرآباد کو انٹرنیشنل ایئرپورٹ بنائینگے یا دینگے جیسے وہ بادشاہ سلامت ہیں اور سونے کی اشرفیاں بانٹینگے، ہم ان سے سوال پوچھتے کہ ریلوے کو بہتر نہ بنا سکے تو اب اس میں کیا راز ہے۔اور ایک بات ہم کہہ سکتے ہیں یقینی طور سے کہ جب تک عوام پورے ملک میں سڑکوں پر نہیں آئینگے اور ان سئور سے زیادہ گندے سیاست دانوں کا گھیرائو نہیں کرینگے کچھ بھی نہیں ہوگا یہ کام عمران خان سے زیادہ انکا ہے اور دنیا میں کئی ملکوں میں گاہے بگاہے عوام سڑکوں پر نکلتے ہیں، یورپ سائوتھ امریکہ افریقہ بس اگر نہیں نکلتے تو امریکہ میں اس لئے کہ سب کے پاس کریڈٹ کارڈ ہے جس پر بے تحاشہ شاپنگ اور عیاشی کرتے ہیں ہر چند کہ پیٹرول دوگنی قیمت کا ہے لیکن ہائی ویز اور شہروں میں سڑکوں پر کاروں نے پارکنگ لاٹ بنایا ہوا ہے ہر چیز کی قیمت ڈبل ہوچکی ہے لیکن کسی کے منہ سے یہ نہیں سنیگے کہ مہنگائی ہے اور اب میڈیا بھی خاموش ہے وہ تو پہلے سے ہی کوئی20سال ہوئے کارپوریشن نے خرید لیا تھا مجال ہے وہ دکھائے جو عوام چاہتے ہیں!۔
٭٭٭٭٭