برصغیر کے مسلمان ایک اور ہجرت پر مجبور؟

0
63
شمیم سیّد
شمیم سیّد

اتر پردیش میں ٹیچر کا ہندو طلبہ کو مسلمان طالب علم کو تھپڑ مارنے کا حکم دینا دراصل قائد اعظم محمد علی جناح کی بصیرت اور دو قومی نظرئیے کی زبردست تائید کرتا ہے۔ یہ طمانچے بھارتی مسلمان کم سن طالب علم کے رخسار پر نہیں بھارت کے نام نہاد جمہوری چہرے پر مارے گئے ہیں۔ ان کی گونج اور نشان صدیوں تک باقی رہے گی۔ اس وقت تک جب تک کوئی اور محمد علی جناح جیسا قائد جنم نہیں لیتا اور بھارتی محکوم مسلمانوں کی قیادت کرتے ہوئے انہیں موتیوں کی مالا کی طرح ایک لڑی میں پرو نہیں دیتا۔ ایسا پردہ غائب سے کب ظہور میں آتا ہے۔ دنیا ہے تیری منتظر اے روز مکافات یہ واقعہ کسی گلی محلے میں بچوں کے باہمی جھگڑے کے دوران پیش آیا ہوتا تو شاید ہی کوئی اس پر توجہ دیتا۔ بچوں کا کیا ہے ابھی لڑتے ہیں کچھ دیر بعد صلح کر لیتے ہیں۔ یہ بدترین واقعہ مسلم دشمنی میں مشہور وزیر اعلی آدیتیہ یوگی کے صوبے اتر پردیش میں پیش آیا جہاں اس موذی شخص نے ہندوئوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف اتنا زہر گھولا ہے کہ اب سکول کے طلبہ بھی اس سے محفوظ نہیں رہے۔ مظفر نگر کے ایک سکول میں متعصب ہندو خاتون ٹیچر نے کسی بات پر مسلمان کم عمر طالب علم کو کلاس میں کھڑا کر کے پہلے تو مسلمانوں کے خلاف خوب بکواس کی اپنے اندر کا زہر اگلا اس کے بعد کلاس کے باقی طالب علموں کہ کہا کہ وہ سب ایک ایک کر کے آئیں اور اس کے منہ پر زوردار طمانچہ رسید کریں۔ اس تکلیف دہ عمل میں وہ مسلمان طالب علم بچہ شدت تکلیف سے روتا رہا۔ بچے تو آخر بچے ہوتے ہیں کئی ہندو طالب علم بچوں نے یا اس کے دوستوں نے ہلکی سے چیت رسید کی تو ٹیچر نما حیوان نے انہیں زور سے تھپڑ لگانے کا حکم دیا۔ بھارت کا سوشل میڈیا اور سیاستدان ہی نہیں سول سوسائٹی نے اس پر بھرپور ردعمل دیا ہے۔ اگر یہ معاملہ عالمی سطح پر اٹھایا جائے مسلم ممالک کے سوشل میڈیا پر چلایا جائے تو بھارت کو سبق سکھایا جا سکتا ہے یہ انسانی حقوق کی ہی نہیں بچوں کے حقوق کی بھی بدترین خلاف ورزی ہے جنہیں ذات، نسل، زبان یا مذہب کے نام پر ناروا سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے منفی ، نفسیاتی ، روحانی و ذہنی اثرات مدتوں ان کی شخصیت کو متاثر کرتے ہیں۔ اس سنگین جرم کے خلاف آواز بلند کرنا تمام انسانوں کا فرض ہے۔
دوسری جانب پاکستان میں بسنے والے شہریوں کی حالت زار بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، سیاسی استحکام کا نہ ہونا، غیر یقینی صورتحال اور معاشی حالات سے تنگ صرف اور صرف گزشتہ 6 ماہ میں ساڑھے 4 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑ گئے ۔ہجرت کا یہ سفر 75 برسوں سے جاری و ساری ہے مگر منزل ہے کہ ملنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ پہلے مسلمان ہندوؤں اور انگریزیوں کی زیادتیوں اور مظالم سے بھاگ کر پاکستان کی آغوش میں سر چھپانے آگئے مگر اپنے ہی وطن عزیز میں جاگیرداروں، سیاستدانوں، بیوروکریٹس اور اشرافیہ کے مظالم کا شکار ہو گئے۔اپنا گھر بار یار دوست۔ ماں باپ بیوی بچے چھوڑ کر جانا کوئی آسان کام نہیں۔ ہجرت کا یہ سفر بہت لمبا اور دردناک ہوتا ہے۔ اگر قانونی راستے سے جانا ہو تو وسیلہ ظفر بھی بن جاتا ہے۔ اگر غیر قانونی ہو تو دکھ اور ابتلا کا ذریعہ ہوتا ہے۔ تارکین وطن جو غیر قانونی طور پر جاتے ہیں ان کی المناک ہلاکتوں کی داستان ہم آئے روز سنتے ہیں جو قانونی طریقے سے جاتے وہ چونکہ زیادہ تر پڑھے لکھے اور ہنر مند ہوتے ہیں۔ کوئی ڈاکٹر ہے تو کوئی انجینئر، کوئی کاروباری ہے تو کوئی صنعتی علوم کا تجربہ رکھتا ہے۔ وہ تو باہر جا کر اپنی جگہ بناتے ہیں۔ باقی غیر ہنرمند اور مزدور پیشہ محنت کش بہت سخت زندگی بسر کرتے ہیں۔ اس کی تمام تر کوشش پیسہ پیسہ بچا کر اپنے گھر والوں کو بھیجنا ہوتا ہے۔ اس داستان ہجرت کا یہی ایک وہ معاشی پہلو ہے جسے مدنظر رکھتے ہوئے وزیر اعظم نے بھی کہا ہے کہ نوجوانوں کے باہر جانا اچھا ہے۔ واقعی اس طرح ان کی ترسیلات زر کی وجہ سے ملکی معاشی حالت بھی بہتر ہوتی ہے اور ان کے گھروں میں بھی خوشحالی آتی ہے۔ اب اگر حکومت مانتی ہے کہ نوجوانوں کا باہر جانا فائدہ مند ہے تو پھر وہ کوئی ایسی پالیسی بنائے کہ پاکستان سے ہر سال 5 یا 10 لاکھ ہنرمند ، محنت کش اور ڈاکٹر و انجینئر قانونی طور پر کم از کم خرچ پر بیرون ملک جائے۔ اگر ایسا ہو جائے اور لاکھوں افراد قانونی طریقے سے جائیں تو وہ خود حکومت کے شکر گزار ہوں گے اور ان کے گھر والے بھی۔ کم از کم اس طرح تارکین وطن کی ہلاکتوں کے صدمے سے تو جان چھوٹے گی۔ ہمارے حکمرانوں کی ناقص منصوبہ بندی اور پالیسیوں کی وجہ سے پہلے ہی ہمارے ملک میں غربت ، بے روزگاری ، بیماری افراط زر کے علاوہ بچوں کی فوج ظفر موج بنانے کے علاوہ ناخواندگی کا دور دورہ ہے۔ باہر جانے کا شوق جن کو ہے انہیں سرکاری پالیسی کے تحت اگر بھیجا جائے تو شاید یہ ہماری تکالیف میں کمی آ جائے، غربت کی ناقابل برداشت تکالیف کے مقابلے میں یہ ہجرت کا کرب قدرے قابل برداشت ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here