واشنگٹن /ماسکو(پاکستان نیوز) روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز سے اتفاق کیا ہے، جس کے تحت روس اور یوکرین 30 دنوں کے لیے ایک دوسرے کے انرجی انفرا اسٹرکچر پر حملے بند کردیں گے۔ وائٹ ہاؤس کے ایک اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک بحیرہ اسود میں سمندری جنگ بندی پر مشرق وسطیٰ میں ‘فوری طور پر’ مذاکرات شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ رہنماؤں نے اتفاق کیا کہ امن کی تحریک انرجی انفرااسٹرکچر کی جنگ بندی کے ساتھ ساتھ بحیرہ اسود میں بحری جنگ بندی کے نفاذ، مکمل جنگ بندی اور مستقل امن کے لیے تکنیکی مذاکرات سے شروع ہوگی۔ڈونلڈٹرمپ روسی صدر پیوٹن پر دباؤ ڈالتے رہے ہیں کہ وہ امریکی حمایت یافتہ 30 دن کی جنگ بندی پر راضی ہو جائے، یوکرین پہلے ہی دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے سب سے بڑے تنازع کو ختم کرنے کے لیے ایک مستقل امن معاہدے کی طرف پیش قدمی کے لیے اسے قبول کر چکا ہے۔اس جنگ میں ہزاروں افراد ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں، لاکھوں بے گھر ہوئے اور قصبے کے قصبے ملبے کے ڈھیر بن گئے ہیں۔پیوٹن نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ انہوں نے جنگ بندی کے لیے واشنگٹن کی تجویز کی اصولی حمایت کی ہے، لیکن یہ کہ ان کی افواج اس وقت تک لڑیں گی جب تک کہ کئی اہم معاملات پر کام نہیں ہو جاتا۔وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ مذاکرات فوری طور پر مشرق وسطیٰ میں شروع ہوں گے، روسی صدارتی محل کریملن کے مطابق صدر پیوٹن نے روسی فوج کو توانائی کے انفرااسٹرکچر پر حملے سے گریز کا حکم دیا۔ ترجمان کے مطابق روس اور یوکرین 175 جنگی قیدیوں کا تبادلہ کریں گے۔ دوسری جانب برطانوی میڈیا کے مطابق جنگ ختم کرنے میں مزید پیش رفت کیلئے روسی مطالبات کی طویل فہرست برقرار ہے۔یوکرینی صدر زیلنکسی کا کہنا ہے کہ پیوٹن کی شرائط ظاہرکرتی ہیں کہ روس جنگ بندی کیلئے تیار نہیں، روسی صدر کا مقصد یوکرین کو کمزور کرنا ہے۔صدر زیلنسکی نے اپنے بیان میں کہا کہ جنگ بندی کی امریکی تجویز پر ٹرمپ سے بات کریں گے، امریکی صدر سے گفتگو کا مقصد یہ جاننا ہوگا کہ روس نے امریکا کو کیا پیشکش کی۔زیلنسکی نے کہا کہ یہ جاننا بھی چاہتے ہیں کہ امریکا نے روس کو کیا پیشکش کی، جنگ بندی کی امریکی تجویز کی حمایت کرتے ہیں لیکن امریکا سے مزید تفصیلات درکار ہیں۔کریملن کے مطابق 19 مارچ کو روس اور یوکرین 175 جنگی قیدیوں کا تبادلہ کریں گے جبکہ روس میں زیرِ علاج 23 یوکرینی فوجی، جو شدید زخمی ہیں، کو بھی یوکرین منتقل کیا جائے گا۔کریملن نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ 30 روزہ جنگ بندی کے دوران یوکرینی افواج کی طرف سے کوئی صف بندی نہ کی جائے۔کریملن نے یہ بھی کہا کہ ٹرمپ نے امریکی اور روسی کھلاڑیوں کے درمیان آئس ہاکی میچوں کے انعقاد کے لیے پوٹن کے خیال کی حمایت کی۔خیال رہے کہ روس کو 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد بیرون ملک آئس ہاکی مقابلوں سے روک دیا گیا تھا۔صدر پوتن اس سے قبل اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ روس کو یوکرین کے زیر قبضہ علاقے کا کنٹرول برقرار رکھنا چاہیے اور کسی بھی ممکنہ امن معاہدے کے حصے کے طور پر مغربی پابندیوں میں نرمی کا مطالبہ کیا ہے۔ادھر جرمن چانسلر اولاف شولز نے برلن میں فرانسیسی صدر کے ساتھ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ محدود جنگ بندی کا منصوبہ ایک اہم پہلا قدم ہے تاہم انھوں نے ایک بار پھر مکمل جنگ بندی کا مطالبہ بھی کیا۔برطانوی وزیر اعظم سٹارمر نے ٹرمپ اور پوٹن کی بات چیت کے بعد صدر زیلنسکی سے بات کی اور برطانیہ کی مکمل متزلزل حمایت کا اعادہ کیا۔