ترک صدر رجب طیب اردوان نے گزشتہ ہفتے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا ہے۔ اس دورے کے دوران پاکستان اور ترکیہ کے مابین 24 معاہدے اور میمورینڈم آف انڈرسٹینڈنگ پر دستخط ہوئے ۔ دونوں ملکوں نے باہمی تجارت کو موجودہ حجم 1.4 ارب ڈالر سے بڑھا کر پانچ ارب ڈالر تک کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ ترکی کی جنگ آزادی میں برصغیر کے مسلمانوں کی طرف سے دی جانے والی حمایت ترک عوام کے ذہنوں میں ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ آج سے سوسال پہلے برصغیر کے عوام نے مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی المعروف علی برادران کی قیادت میں اپنے ترک بھائیوں کی حمایت میں برطانوی سامراج کے خلاف ترک خلافت کی بحالی کی تحریک چلائی جس میں موجودہ پاکستان اور ہندوستان کے مسلمانوں نے دل کھول کر مالی امداد دی۔ حتی کہ مسلمان خواتین نے ترک بھائیوں کی مالی امداد کے لیے اپنے زیورات دیدیے۔ بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح نے برصغیر کے عوام کے اس جذبہ کو نئی مملکتِ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا اہم ستون قرار دیا اور پاکستان کے مسلم ممالک کے ساتھ خصوصی تعلقات کی بنیاد قرار دیا۔ قائدِ اعظم کے الفاظ میں برصغیر کے مسلمانوں کے سیاسی شعور کی پہلی بنیاد ہی مسلم اُمہ کے درد کا احساس اور اس کے ساتھ اظہار یکجہتی ہے جس کا عملی مظاہرہ برصغیر کے مسلمانوں نے خلافت موومنٹ کے دوران کیا۔ ترک قیادت اور ترک عوام، پاکستانی بھائیوں کے اس جذبے کو کبھی نہیں بھولے اور آج تک اس کی قدر کرتے ہیں۔ صدر رجب طیب اردوان نے اپنے حالیہ دورہ کے دوران پہلی جنگ عظیم اور ترکی کی طرف سے آزادی کے لیے لڑی جانے والی لڑائی کے دوران برصغیر کے مسلمانوں کی حمایت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جنگ آزادی اور چاناکلے کی لڑائیوں کے دوران یہاں کے مسلمانوں کی ہمارے لیے کی گئی حمایت ہمارے غیر معمولی تعلقات کی سب سے نمایاں مثالیں ہیں۔اردوان نے پاکستان کو اپنا دوسرا گھرقرار دیا اور پاکستان کے بانیوں، محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کو جمہوریہ ترکی سے متاثر ہوکر جدید طرز کی ریاست کے طور پر پاکستان کے قیام کو ممکن بنانے کو سراہا۔ صدر اردوان نے کہا کہ محمد علی اور شوکت علی برادران وہ “ہیرو ہیں جنہیں ہم مشترکہ طور پر یاد کرتے ہیں۔”پاکستان اور ترکیہ کے مابین تعلقات کا یہ تاریخی پس منظر ظاہر کرتا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین ریاستی سطح کے گہرے تعلقات ہیں جو سیاسی شخصیات سے مبرا ہیں۔ دونوں برادر ملکوں نے 2022 میں سفارتی تعلقات کے قیام کی 75 ویں سالگرہ منائی ہے۔ دوسری طرف، قدرتی آفات جیسے مشکل ترین چیلنجز سے نمٹنے میں پاکستان اور ترکیہ کا ایک دوسرے کے ساتھ تعاون، دونوں ملکوں کے عوام کے مابین قریبی تعلقات کو مزید گہرا کرنے کا باعث بنا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات کو 2009 میں اعلی سطحی تعاون کونسل کے قیام کے ساتھ ادارہ جاتی شکل دی گئی، جسے بعد میں اعلی سطحی اسٹریٹجک کوآپریشن کونسل کی سطح پر اپ گریڈ کیا گیا۔صدر رجب طیب اردوان کے حالیہ دورے کے موقع پر اس کونسلکا ساتواں اجلاس اِسلام آباد میں ہوا جس میں دونوں ملکوں کی باہمی تجارت کے سالانہ حجم کو پانچ ارب ڈالر تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے جس کے لیے اشیا اور مصنوعات کے تجارتی معاہدے کے دائرہ کار کو بھی بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اسی طرح ترک فرمز کے لیے خصوصی اقتصادی زون (SEZ) کے قیام کے لیے بھی گراونڈ ورک کیا گیا ہے۔ اس سے قبل مئی 2023 میں، دونوں ملکوں نے ایک ترجیحی تجارتی معاہدے پر دستخط کیے ہیں، جس میں 130 مصنوعات کی کیٹیگریز پر پاکستانی ٹیرف کو کم کیا گیا ہے، جب کہ ترکی نے 261 مصنوعات کی لائنوں پر ٹیرف میں کمی کی ہے۔صدر اردوان کے حالیہ دورے کے دوران دستخط کیے گئے 24 معاہدوں میں دفاعی تعاون، بجلی، توانائی، کان کنی، تجارت، صنعتی ترقی، آبی وسائل، بیج کی پیداوار، سائنسی تعلیم و تربیت، بینکنگ، مذہبی خدمات، حلال خوراک، میڈیا، قانونی تعاون، صحت، ایرو اسپیس اور ثقافتی تبادلے سمیت وسیع شعبوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ جن دفاعی معاہدوں پر دستخط کیے گئے ان میں ترکش ایرو اسپیس انڈسٹریز (TAI) اور پاکستان کے نیول ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ (NRDI) کے درمیان مفاہمت کی ایک یادداشت بھی شامل تھی۔ دونوں ممالک نے دفاعی صنعت میں تعاون کے حوالے سے مفاہمت کی یادداشت پر بھی دستخط کیے گئے ہیں۔ HLSCC میکانزم کے تحت تین نئی جائینٹ سٹینڈنگ کمیٹیز JSCs، یعنی “Security, Defence, and Intelligence JSC”، “Health JSC” اور “Science and Technology JSC” قائم کیے گئی ہیں۔
جہاں تک پاکستان اور ترکیہ کے باہمی تعلقات کا تعلق ہے تو دونوں ممالک اپنے مابین Advance Strategic Cooperation کے قیام کے لیے پرعزم ہیں اور دیرپا اور کثیر الجہتی باہمی تعلقات کے لیے اعلی سطحی اسٹریٹجک کوآپریشن کونسل (HLSCC) کے نام سے ایک اداری جاتی فریم ورک بھی تشکیل دے چکے ہیں۔ اس دوسرے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اس دورے نے مختلف شعبوں میں پہلے سے جاری تعاون کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کی پرائیویٹ فرموں کے مابین قریبی تعاون اور Joint Ventures کے قیام کی راہیں کھول دی ہیں۔ ترکیہ اور پاکستان کے باہمی تعلق کی نوعیت کی بہترین عکاسی ایک جملہ کرتا ہے جو ترکیہ کی وزارتِ دفاع سے منسلک ایک ترک آفیشل نے 2016 میں کوالالمپور میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس کے دوران مجھ سے بولا تھا کہ “پاکستان، ترکیہ کا دوست نہیں بلکہ بھائی ہے۔” صدر اردوان کی قیادت میں ترکی یقینی طور پر زیادہ بااثر ہوا ہے نہ صرف پورے مشرق وسطی میں بلکہ افریقہ اور یورپ میں بھی۔ عرب دنیا میں Arab Spring کے نام سے اٹھنے والی تحریکوں کے دوران مصر اور دیگر جگہوں پر اخوان المسلمون کی حمایت کے نتیجے میں ترکی کے عرب دنیا کے ساتھ تعلقات تلخ ہوگئے تھے۔ تاہم صدر اردوان نے عرب ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا شروع کر دیا ہے۔ صدر اردوان کو ایک ایسے شخص کے طور پر دیکھا جاتا ہے جو مسلم دنیا میں ترکی کے وقار کی بحالی اور ترکی کے اِسلامی تشخص کی دوبارہ ترویج کے لیے پرعزم ہیں۔ حالیہ دنوں میں چین کی ثالثی کے ذریعے سعودی عرب اور اِیران کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی نے علاقائی سیاست کو ایک نیا رخ دیدیا ہے جو پاکستان سمیت مسلم دنیا کے لیے اِیک خوش آئند امر ہے۔ اسی طرح ترکی نے 2015 میں بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو میں شامل ہوکر برسوں سے چین کے ساتھ اتحاد کیا ہوا ہے جو پاکستان جیسے چین کے قریبی اور گہرے دوست کے لیے مزید اطمینان کا باعث ہے۔ صدر اردوان اپنے اِقتدار کی تیسری دہائی میں داخل ہوچکے ہیں اور یقینا ترکیہ کی خارجہ پالیسی کی تشکیل اور سمت کے تعین میں وسیع تجربہ کے حامل ہیں۔ صدر ارداون کی کی قیادت میں ترکیہ کی آئندہ خارجہ پالیسی کے بارے میں یہی پیش گوئی کی جاسکتی ہے کہ صدر اردوان کے تحت، ترکی کی خارجہ پالیسی مغرب سے اسٹریٹجک خود مختاری حاصل کرنے کی راہ پر گامزن ہوگی جبکہ روس اور چین جیسے ممالک کے لیے ترکیہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کی مزید راہیں کھلیں گی۔
٭٭٭